View Categories

سوال1:کیا اہل سنت کو شیعہ کے اس قول سے اثر پڑا کہ وہ جعفر صادق، غائب امام، حسین، اور علی بن ابی طالب کو "امام” کہتے ہیں؟ اور ہم کیوں نہیں کہتے: امام ابو بکر صدیق، امام عمر، امام عثمان؟

(جواب): اول: لفظ "إمام” لغوی طور پر مقصد یا رہنمائی دینے والے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی جو شخص جس کی طرف لوگ متوجہ ہوں یا جو لوگوں کا رہنما ہو۔ امام وہ ہوتا ہے جس کی طرف معاملہ رخ کرتا ہے اور لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ امامِ نماز وہ امام ہے جس کے پیچھے لوگ نماز پڑھتے ہیں، امامِ فقہ وہ امام ہے جس کے گرد لوگ علم حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور امامِ امت وہ امام ہے جو حکومتی معاملات کی قیادت کرتا ہے۔

یہاں "صدارت” ایک غیر جانبدار اصطلاح ہے، جو ہمیشہ تعریف یا عزت کے لیے نہیں آتی۔ امامت کبھی اچھائی کی صدارت میں ہوتی ہے اور کبھی برائی کی صدارت میں، جیسے کہ ہم کہتے ہیں "امام عدل” اور "امام جور”، اور دونوں ہی امام ہیں۔

قرآن میں دونوں قسم کی امامت کا ذکر آیا ہے؛ ہدایت کی امامت میں اللہ تعالی نے فرمایا:
{إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا} [بقرة: 124]
اور برائی کی امامت میں فرمایا:
{إِنَّهُ لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ وَإِنَّهُ لِيَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُفْسِدِينَ} [قصص: 41]
یعنی امام چاہے اچھے ہوں یا برے، وہ معاملات کا سر براہ ہوتا ہے۔

اگرچہ لفظ "امام” قرآن میں مفرد اور جمع دونوں میں آیا ہے، اور حدیث میں بھی استعمال ہوا ہے، جیسے کہ حضرت ﷺ نے فرمایا: "إِمَامٌ عَادِلٌ” (رواه البخاري)، اور اسی طرح امام کے حوالے سے ذمہ داری کے بیان میں فرمایا: "فَالإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ” [رواه الشيخان]، لیکن باوجود اس کے، اس لفظ کا استعمال صحابہ کرام میں کسی فرد کی خاص شناخت کے طور پر نہیں کیا گیا، حتی کہ حضرت عمر نے خلافت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے فرمایا: "الْأَئِمَّةُ مِنْ قُرَيْشٍ” [أحمد كى مسند كى روايت ]، پھر بھی حضرت ابو بکر نے "امامت” کا لفظ استعمال نہیں کیا، بلکہ "خلیفہ” کا لفظ استعمال کیا، اور حضرت عمر اور حضرت عثمان نے بھی یہی لفظ استعمال کیا۔

صرف امام کے لفظ کا استعمال نماز کی امامت کے لیے مخصوص تھا، اور یہ کسی فرد کی خاص عنوان کے طور پر نہیں آیا، جیسے حضرت عثمان بن عفان کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ وہ ایک خاص مقام پر امام کی حیثیت رکھتے تھے۔

دوسرا: سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد امامت کے لفظ کا استعمال سیاسی وجوہات کی بنا پر بڑھا، خاص طور پر حضرت معاویہ اور حضرت علی کے درمیان خلافت کے معاملے میں۔ اس وقت بعض لوگوں نے حضرت علی کو "امام” کے لقب سے نوازا، جو کہ سیاسی ضروریات کے مطابق تھا، تاکہ وہ اپنی حیثیت اور مقام کو مضبوط کر سکیں۔

تیسرا: اموی دور میں فتوحات کی وسعت اور اسلامی علوم کے تماز کا آغاز ہونے کے بعد امام کے لفظ کا استعمال مزید بڑھا۔ یہ صرف شیعہ حضرات تک محدود نہیں رہا بلکہ دوسرے گروہ، جیسے بنی عباس کے ائمہ اور اہل حجاز کے علماء بھی اس لفظ کا استعمال کرنے لگے۔ پھر جب مختلف مسالک اور فقہوں کا آغاز ہوا، تو امام کا لفظ مختلف فقہوں کے علماء کے لیے استعمال ہونے لگا، جیسے امام احمد بن حنبل، امام ماتریدی اور امام شافعی۔

چہارم: جدید دور میں امام کا لفظ کسی بھی اہم عالم یا مجتہد کے لیے استعمال ہونے لگا، جیسا کہ "امام اعظم” یا "امام اکبر” کا استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کا مطلب وہ شخص ہوتا ہے جو ایک خاص علمی اور دینی مقام پر فائز ہو۔

نتیجہ: لہذا، شیعہ کے اثرات کی کوئی خاص بات نہیں ہے، بلکہ لفظ "امام” ایک عام اصطلاح ہے جو وقت کے ساتھ اسلامی ریاست اور ثقافت کی ترقی کے ساتھ اپنے معنی اور استعمال میں تبدیل ہوئی۔ جیسے لفظ "شیخ” کا استعمال بھی پہلے کسی بزرگ یا عمر رسیدہ شخص کے لیے ہوتا تھا، اب یہ کسی علمی یا سماجی مقام کے حامل شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے