"مہد (گھٹی) میں صرف تین لوگوں نے بات کی: عیسیٰ علیہ السلام، اور بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس کا نام جُریج تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے پکارا۔ جریج نے دل میں کہا: میں نماز پوری کروں یا ماں کی بات مانوں؟ اس کی ماں نے بددعا دی: اے اللہ! اس کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ یہ بدکار عورتوں کے چہرے نہ دیکھ لے۔
جریج اپنی عبادت گاہ میں تھا، ایک عورت نے اسے ورغلانے کی کوشش کی، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ وہ عورت ایک چرواہے کے پاس گئی اور اس سے ناجائز تعلق قائم کیا، پھر ایک لڑکا پیدا ہوا۔ عورت نے دعویٰ کیا کہ یہ جریج کا بچہ ہے۔ لوگوں نے آ کر جریج کی عبادت گاہ توڑ دی، اسے نیچے اتارا اور برا بھلا کہا۔ جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھی، پھر بچے کے پاس آیا اور کہا: اے بچے، تیرا باپ کون ہے؟ بچے نے جواب دیا: چرواہا۔
لوگوں نے کہا: ہم تمہاری عبادت گاہ سونے کی بنا دیں گے۔ جریج نے کہا: نہیں، صرف مٹی کی بنا دو۔
ایک اور واقعہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی۔ ایک بڑے ساز و سامان والے شخص کا گزر ہوا، عورت نے کہا: اے اللہ! میرے بچے کو اس جیسا بنا۔ بچے نے دودھ چھوڑ دیا اور اس شخص کی طرف دیکھا اور کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا نہ بنا۔
پھر ایک باندی گزری، عورت نے کہا: اے اللہ! میرے بچے کو اس جیسا نہ بنا۔ بچے نے دودھ چھوڑ دیا اور کہا: اے اللہ! مجھے اس جیسا بنا۔
عورت نے حیران ہو کر پوچھا: یہ کیوں؟
بچے نے جواب دیا: وہ شخص جابر ظالم تھا، اور یہ باندی کہی جا رہی ہے کہ اس نے چوری کی، زنا کیا، حالانکہ اس نے کچھ نہیں کیا۔”
مجھے ایک شخص نے پوچھا کہ اصحاب الاخدود کے واقعے میں وہ بچہ جس نے اپنی ماں سے بات کی، اس کا ذکر اس حدیث میں کیوں نہیں ہے؟ آپ کا اس پر کیا جواب ہے؟
آپ کے سوال کے جواب میں درج ذیل نکات پر توجہ دی جا سکتی ہے
:جواب:
پہلا نکتہ: روایات اور علماء کی آراء میں اختلاف
علماء اور محدثین نے ان بچوں کی تعداد میں اختلاف کیا ہے جنہوں نے بچپن یا "مہد” (گھٹی) میں بات کی:
- تین کا ذکر: کچھ روایات میں صرف تین بچوں کا ذکر ہے، جیسا کہ آپ کی ذکر کردہ حدیث میں آیا ہے۔
- چار کا ذکر: صحیح مسلم کی روایت میں "اصحاب الاخدود” والے بچے کا اضافہ کیا گیا ہے، جس میں وہ بچہ اپنی ماں کو حق پر ہونے کی تلقین کرتا ہے۔
- سات کا ذکر: بعض علماء، جیسے امام بدرالدین العینی، نے سات بچوں کا ذکر کیا ہے، جن میں یوسف علیہ السلام کے گواہ، فرعون کی ماں کے بچے، اور حضرت یحییٰ علیہ السلام شامل ہیں۔
- دس کا ذکر: دیگر روایات میں بچوں کی تعداد دس تک پہنچی ہے، جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، نبی اکرم ﷺ، اور "مبارک الیمامی” بھی شامل ہیں۔
دوسرا نکتہ: مختلف روایات کی صحت
- ثابت شدہ چار واقعات: تمام معتبر احادیث میں درج ذیل چار بچوں کا ذکر متفق علیہ ہے:
- حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔
- جریج کے واقعے میں بچہ۔
- اصحاب الاخدود والے بچے۔
- دودھ پیتے بچے کا واقعہ جس نے ایک جابر حکمران کو دیکھ کر بات کی۔
- باقی واقعات: دیگر بچوں کے واقعات میں اختلاف ہے، اور ان کی صحت پر علماء کے مابین بحث رہی ہے۔
تیسرا نکتہ: حصر (تعداد محدود کرنے) کی وضاحت
"لم يتكلم في المهد إلا…” جیسی احادیث میں "حصر” کا مطلب ہمیشہ "مکمل گنتی” نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات اہمیت یا نمایاں پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر:
- نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد…”۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کا سفر جائز نہیں، بلکہ ان تین کا مقام اور فضیلت دیگر مساجد سے برتر ہے۔
- حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ چار افراد نے نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں قرآن جمع کیا، حالانکہ اور بھی صحابہ نے قرآن حفظ کیا تھا۔ اس میں عدد کی تخصیص ثناء اور فضیلت کے لیے تھی، نہ کہ مطلق تعداد کے لیے۔
چوتھا نکتہ: جمع بین النصوص
اختلافی روایات کے درمیان جمع کرنے کی قاعدہ یہ ہے کہ کسی روایت کو رد کرنے کے بجائے تمام روایات کو ان کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھا جائے:
- ممکن ہے نبی اکرم ﷺ کا مقصد ان بچوں کا ذکر ہو جو "مہد” کے ابتدائی دنوں میں بولے۔
- "اصحاب الاخدود” والے بچے کی عمر سات ماہ بتائی گئی ہے، جو ممکنہ طور پر "مہد” کی عمر سے آگے تھی۔
- جریج کے واقعے میں بچے کی بات "گواہی” کے طور پر معجزہ تھی، جب کہ دیگر بچوں کا کلام مختلف معجزاتی سیاق میں تھا۔
نتیجہ
اختلاف کا سبب مختلف روایات میں سیاق و سباق، بیان کی اہمیت، اور مفہوم کی وسعت ہو سکتی ہے۔ جو چار معجزے مستند احادیث سے ثابت ہیں، ان پر اتفاق ہے، جب کہ دیگر روایات میں اختلاف صحت اور سیاق کی بنا پر ہے۔
مفتی خالد نصر نے بھی وضاحت کی کہ "حصر” ہمیشہ مطلق نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اہمیت پر دلالت کرتا ہے، اور "مہد” کی تعریف سیاق کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔