View Categories

سوال :109 بچے کو ایسی دوا دینا کیسا ہے جس میں ڈاکٹر کے نسخے کے مطابق الکحل شامل ہو؟

جواب:

فقہاء کے درمیان اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کھانے یا پینے کی اشیاء میں الکحل کی تھوڑی مقدار شامل ہو سکتی ہے یا نہیں۔ درست رائے یہ ہے کہ الکحل کی وہ قسم جو نشہ آور نہیں بلکہ دوا میں دوسرے مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے، جیسے کہ صفائی وغیرہ کے لیے، اسے استعمال کرنے میں حرج نہیں۔

ہماری رائے یہ ہے کہ دوا میں استعمال ہونے والا الکحل حرام نہیں ہے، اسی طرح وہ الکحل بھی جو جراثیم کش اور صفائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مغنی المحتاج میں امام خطیب شربینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "خمر سے براہ راست علاج میں اختلاف ہے، مگر تریاق یا کسی ایسی دوا میں جس میں خمر شامل ہو لیکن اس کا اثر ختم ہو گیا ہو، اس سے علاج کرنا جائز ہے، بشرطیکہ کوئی پاک متبادل نہ ہو اور علاج ضروری ہو، اور یہ تجویز کسی عادل مسلم ڈاکٹر نے دی ہو۔"

دوا میں شامل الکحل کی مقدار اتنی کم ہوتی ہے کہ اس کا اثر دوا کے دوسرے اجزاء میں ختم ہو جاتا ہے، اور یہ نشہ آور نہیں۔ مزید برآں، الکحل کے استعمال میں حرمت اس وقت ہوتی ہے جب وہ نشے کے لیے مشروب کے طور پر استعمال کیا جائے۔

لہذا، ایسی دوائیں جن میں کم مقدار میں الکحل موجود ہو اور جس کا کوئی متبادل نہ ہو، اور جو طبی ضرورت کے تحت عادل ڈاکٹر نے تجویز کی ہو، ان کا استعمال جائز ہے۔ اسی طرح زخموں کو صاف کرنے، جراثیم کو مارنے، یا بیرونی استعمال کی کریموں اور مرہم میں بھی الکحل کا استعمال جائز ہے۔
اور اللہ بہتر جانتا ہے