جواب:
اس سوال کے جواب میں درج ذیل امور کی وضاحت ضروری ہے:
پہلا: وضو کے ٹوٹنے کا حکم خون کے نکلنے سے متعلق
فقہاء کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ خون نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں:
احناف کا موقف:
ان کے نزدیک خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، بشرطیکہ خون بہنے والا ہو اور زخم یا خروج کے مقام سے جدا ہو جائے۔
ان کے نزدیک خون کی مقدار خواہ کم ہو یا زیادہ، دونوں صورتوں میں وضو ٹوٹ جائے گا۔
حنابلہ کا موقف:
حنابلہ بھی احناف کی طرح خون نکلنے کو وضو توڑنے والا سمجھتے ہیں، لیکن وہ شرط لگاتے ہیں کہ خون کی مقدار زیادہ ہو۔
دلیل:
احناف اور حنابلہ نے تمیم داری کی روایت سے استدلال کیا ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:
"ہر بہنے والے خون سے وضو واجب ہے۔”
تاہم اس حدیث کو دارقطنی نے ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ اس میں انقطاع اور دو راویوں کی جہالت موجود ہے۔
دوسری دلیل عائشہؓ کی روایت ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا:
"جس کو قے، خون بہنا، کھٹی ڈکار، یا مذی لاحق ہو، وہ جائے، وضو کرے، اور اپنی نماز مکمل کرے بشرطیکہ وہ دورانِ نماز بات نہ کرے۔”
مگر اس روایت کو بھی بوصیری نے اسماعیل بن عیاش کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔
مالکیہ اور شافعیہ کا موقف:
ان کے مطابق خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اور یہی ربیعہ، ابن المنذر، اور ابو ثور کا قول ہے۔
دلیل:
دوسرا: خون کی نجاست کا حکم
انسان کے جسم سے نکلنے والا بہتا ہوا خون، چاہے وہ زخم، نکسیر، یا سینگی سے نکلا ہو، نجس ہے۔
یہ خون اگر کپڑوں یا جسم پر لگ جائے تو اسے پاک کرنا ضروری ہے، اور یہی حکم تمام فقہاء (حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ) کے نزدیک ہے۔
متعدد علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ بہنے والا خون نجس ہے اور دوسروں کو بھی ناپاک کر دیتا ہے۔
مریض کی حالت میں طہارت کا حل
مریض جس کے زخم پر خون آلود پٹیاں ہیں، اس کے لیے خون کے بہنے کو معمولی عذر سمجھا جائے گا۔
اگر خون مسلسل بہہ رہا ہو اور وضو برقرار رکھنا مشکل ہو، تو شریعت مریض کو سہولت دیتی ہے کہ وہ اس حالت میں نماز ادا کرے، اور اس پر گناہ نہیں۔
خون آلود پٹیوں کو تبدیل کرنا اگر ممکن ہو تو بہتر ہے، بصورت دیگر وہ اسی حالت میں نماز پڑھ سکتا ہے۔
مریض کو چاہیے کہ وضو کرے، اور زخم یا پٹی کی وجہ سے جو خون باقی رہ جائے، اسے نظرانداز کیا جائے، کیونکہ شریعت عذر کی حالت میں نرمی کا حکم دیتی ہے۔
انہوں نے جابرؓ کی روایت سے دلیل لی ہے جس میں ایک صحابی کو تین تیر لگے، لیکن انہوں نے اپنی نماز نہیں توڑی۔ اور نبی ﷺ نے انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
دوسرا: خون کی نجاست کا حکم
انسان کے جسم سے نکلنے والا بہتا ہوا خون، چاہے وہ زخم، نکسیر، یا سینگی سے نکلا ہو، نجس ہے۔
یہ خون اگر کپڑوں یا جسم پر لگ جائے تو اسے پاک کرنا ضروری ہے، اور یہی حکم تمام فقہاء (حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ) کے نزدیک ہے۔
متعدد علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ بہنے والا خون نجس ہے اور دوسروں کو بھی ناپاک کر دیتا ہے۔
مریض کی حالت میں طہارت کا حل
مریض جس کے زخم پر خون آلود پٹیاں ہیں، اس کے لیے خون کے بہنے کو معمولی عذر سمجھا جائے گا۔
اگر خون مسلسل بہہ رہا ہو اور وضو برقرار رکھنا مشکل ہو، تو شریعت مریض کو سہولت دیتی ہے کہ وہ اس حالت میں نماز ادا کرے، اور اس پر گناہ نہیں۔
خون آلود پٹیوں کو تبدیل کرنا اگر ممکن ہو تو بہتر ہے، بصورت دیگر وہ اسی حالت میں نماز پڑھ سکتا ہے۔
مریض کو چاہیے کہ وضو کرے، اور زخم یا پٹی کی وجہ سے جو خون باقی رہ جائے، اسے نظرانداز کیا جائے، کیونکہ شریعت عذر کی حالت میں نرمی کا حکم دیتی ہے۔
بعض اہل علم نے خون کو نجس قرار دینے کے بجائے اسے پاک تصور کیا ہے، سوائے حیض کے خون کے، جو ان کے نزدیک نجس ہے۔ ان اہل علم میں امام شوکانی، صدیق حسن خان، اور بعض دیگر متکلمین شامل ہیں، جیسا کہ امام نووی نے نقل کیا ہے۔
ان کے دلائل:
شہداء کے خون کو نہ دھونا:
- نبی کریم ﷺ نے شہداء کے خون کو دھونے سے منع کیا اور ان کے جسم کو خون آلود حالت میں دفنانے کا حکم دیا۔ اگر خون نجس ہوتا تو اسے چھوڑا نہ جاتا۔
نماز کی حالت میں خون بہنا:
ایک صحابیؓ کو تین تیر لگے، اور ان کے جسم سے خون بہتا رہا، لیکن انہوں نے نماز جاری رکھی۔ نبی ﷺ نے ان کی نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
استحاضہ کے دوران جماع کی اجازت:
مستحاضہ عورت کے ساتھ جماع جائز ہے، جبکہ حیض کی حالت میں ممنوع ہے۔ اگر خون بذاتِ خود نجس ہوتا تو مستحاضہ کے ساتھ بھی جماع ممنوع ہوتا۔
حضرت ابن مسعودؓ کا عمل:
حضرت ابن مسعودؓ نے ایک اونٹ ذبح کیا اور ان کا جسم خون سے تر ہو گیا۔ اسی حالت میں انہوں نے نماز ادا کی اور خون کو دھویا نہیں۔
حسن بصری کا قول:
امام بخاری نے تعلیقاً حسن بصریؒ کا قول نقل کیا ہے:
"مسلمان ہمیشہ اپنی زخموں کی حالت میں نماز پڑھتے رہے ہیں۔”
اگر خون نجس ہوتا تو زخموں کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہ ہوتا۔
حضرت عمرؓ کا واقعہ:
حضرت عمرؓ کو جب خنجر مارا گیا اور ان کے جسم سے خون بہنے لگا، تو انہوں نے نماز مکمل کی اور اسے ترک نہیں کیا۔
ترجیحی رائے:
مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں بعض اہل علم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ خون بذاتِ خود نجس نہیں ہے۔
خون کو نجس قرار دینے کی صورت میں کئی عملی مشکلات پیدا ہوں گی، خاص طور پر خون کے عطیہ (Blood Donation) کے مسائل میں، کیونکہ عطیہ شدہ خون فقہی اصطلاح میں "دم مسفوح” کے زمرے میں آتا ہے۔
ضرورت کے تحت خون کے استعمال کو جائز کہنا اور اسے نجس قرار دینا بیک وقت متضاد باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
نتیجہ:
اگرچہ جمہور علماء خون کو نجس مانتے ہیں، لیکن مذکورہ دلائل کے پیش نظر یہ رائے بھی قابل غور ہے کہ خون نجس نہیں ہے، سوائے حیض کے خون کے، جو نصوص سے واضح طور پر نجس قرار دیا گیا ہے۔ اس اختلاف کے باوجود شریعت کا عمومی اصول یہ ہے کہ ضرورت کی حالت میں آسانی اور رخصت دی جاتی ہے۔
تیسرا: خون آلود کپڑے یا پٹی کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم
نماز کی صحت کے لیے بدن، لباس، اور جائے نماز کا پاک ہونا ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔” (مدثر: 4)
خون کی طہارت یا نجاست اور اسے ہٹانے کی استطاعت کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ درج ذیل تفصیل پیش کی جاتی ہے:
جمہور کا موقف (اکثر فقہاء):
زیادہ خون:
جمہور فقہاء (احناف، شافعیہ، مالکیہ، حنابلہ) کے نزدیک بدن یا کپڑوں پر زیادہ خون ہو تو نماز باطل ہو جاتی ہے۔
کم خون:
احناف اور مالکیہ:
کم خون کے ساتھ نماز جائز ہے، بشرطیکہ خون کی مقدار درہم کے برابر یا بغلی خچر کے بازو پر موجود سیاہ دائرے سے زیادہ نہ ہو۔
شافعیہ:
کم خون معاف ہے، لیکن اس کی مقدار کے تعین میں عرف کا اعتبار ہوگا۔
. خون کو پاک سمجھنے والے علما کا موقف:
ان کے نزدیک خون کی طہارت کے قائلین کے نزدیک بدن، لباس، یا جائے نماز پر خون ہو تو بھی نماز صحیح ہے، خواہ خون زیادہ ہو یا کم۔
مسئلہ کے مطابق حکم:
خون کو پاک سمجھنے والوں کے مطابق:
اگر ضماد (پٹی) پر خون لگا ہو تو نماز درست ہے، کیونکہ ان کے نزدیک خون نجس نہیں ہے۔
خون کو نجس سمجھنے والوں کے مطابق:
اگر ضماد پر زیادہ خون لگا ہو اور اسے ہٹانا ممکن ہو، تو اسے ہٹا کر نماز ادا کی جائے۔
اگر پٹی کو ہٹانا ممکن نہ ہو یا اس سے مریض کو تکلیف یا بیماری میں اضافہ ہو تو ایسی حالت میں نماز ادا کرنا جائز ہے، کیونکہ ضرورت کی حالت میں طہارت کے حکم کو معاف کر دیا جاتا ہے۔
نتیجہ:
خون کے پاک ہونے کے قائلین کے نزدیک نماز بلا کسی کراہت کے جائز ہے۔
جمہور (اکثر فقہاء) کے نزدیک ضرورت اور مجبوری کی صورت میں خون آلود پٹی کے ساتھ نماز درست ہوگی، اور اس میں مریض کے لیے رخصت ہے۔