جواب:
پہلا نکتہ:
صدقہ فطر کے فرض ہونے کی حکمت متنوع ہے، صرف عید کے دن غریبوں کو خوش کرنا اس کا واحد مقصد نہیں۔ جیسا کہ ابن عباسؓ کی حدیث میں آیا:
"رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر فرض کیا تاکہ روزے دار کو لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک کرے اور مسکینوں کو کھانے کا سامان فراہم کرے۔” (ابو داؤد، ابن ماجہ)
یہ صدقہ دراصل زکاةِ بدن ہے، نہ کہ مال کی زکاة۔
یہ روزے کے دوران ہونے والی کوتاہیوں کا کفارہ ہے۔
عید کے بعد غریبوں کو ان کی ضروریات پوری کرنے میں مدد فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔
دوسرا نکتہ:
فقہاء کے نزدیک صدقہ فطر ادا کرنے کا بہترین وقت عید کی نماز سے پہلے ہے:
شافعیہ، حنابلہ اور ایک قول مالکیہ کے مطابق:
صدقہ فطر رمضان کے آخری دن کے غروب آفتاب کے وقت واجب ہوتا ہے۔
احناف، مالکیہ (دوسرا قول) اور ظاہریہ کے نزدیک:
یہ عید کے دن فجر کے طلوع کے وقت واجب ہوتا ہے۔
جمہور علماء کا کہنا ہے:
عید کے دن غروب آفتاب تک صدقہ فطر ادا کیا جا سکتا ہے، لیکن بلا عذر عید کے دن کے بعد اس کو مؤخر کرنا حرام ہے۔
تاخیر کے ساتھ بھی صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے، لیکن تاخیر گناہ کا باعث ہو سکتی ہے۔
تیسرا نکتہ:
صدقہ فطر کے مال کو مؤخر کرنے کا مسئلہ:
اگر صدقہ فطر جمع کرنے والے (مساجد یا ادارے) فوری طور پر مستحقین تک پہنچا سکتے ہیں، تو تاخیر مناسب نہیں کیونکہ مال کا حق مستحقین کے لیے ہے۔
لیکن اگر مستحقین غائب ہوں، یا ان کی ضرورت وقتاً فوقتاً ہو، یا یہ خدشہ ہو کہ وہ مال کو غلط استعمال کریں گے، تو ایسی صورت میں صدقہ فطر کی تقسیم میں کچھ وقت کی تاخیر جائز ہے۔
فقہی حوالہ:
رحيبانی لکھتے ہیں:
"زکاة کو اس وقت کے مستحقین کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے مؤخر کرنا جائز ہے جن کی ضرورت زیادہ ہو، لیکن اس کو محدود وقت میں تقسیم کیا جانا چاہیے۔”
احناف کا موقف:
ان کے نزدیک زکاة کے حوالے سے نرمی ہے، اور وہ اس کو ادا کرنے کو تراخی کے ساتھ جائز سمجھتے ہیں، بشرطیکہ تاخیر مستحقین کے فائدے کے لیے ہو۔
نتیجہ:
مساجد یا ادارے جو صدقہ فطر جمع کرتے ہیں، انہیں مستحقین کی ضرورت کے مطابق جلد تقسیم کرنی چاہیے، لیکن اگر تاخیر کسی معقول وجہ سے ہو (جیسے زیادہ مستحقین کو پہنچانا)، تو وہ گناہگار نہیں ہوں گے۔
الحموی کا قول:
حموی نے "الظہیریہ” میں فرمایا:
"پھر زکاة تراخی کے ساتھ واجب ہوتی ہے ابن شجاع کی روایت کے مطابق، لیکن محمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ فوراً واجب ہوتی ہے، اور ایک روایت کے مطابق اگر زکاة پر دو سال گزر جائیں اور اسے ادا نہ کیا جائے تو وہ گناہگار ہوگا اور اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔”
محمد رحمہ اللہ کے قول سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان زکاة کی ادائیگی میں اس وقت تک گناہگار نہیں ہوتا جب تک دو سال نہ گزر جائیں اور زکاة اس کے پاس ہو۔
خلاصہ:
زکاة کے مال پر اگر کسی کے پاس امانت یا ضمانت کی حیثیت میں ہے، تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی حالت اور بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اسے نئے حول کے دوران تقسیم کرنے میں وقت لے سکتا ہے۔