جواب:
الفاظ کے استعمال میں حقیقت اور مجاز دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔ "قلم کا اٹھا لیا جانا” مجازاً اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، یعنی بلوغت سے پہلے ان کے اعمال پر گناہ نہیں ہوگا۔
مؤاخذے کی دو اقسام ہیں:
اللہ کے حقوق سے متعلق:
جیسے نماز، روزہ اور حج۔ ان اعمال پر بچوں کو مؤاخذہ نہیں ہوگا اور ان کے ترک پر وہ گناہگار نہیں ہوں گے۔
بندوں کے حقوق سے متعلق:
جیسے چوری یا قتل۔
ان میں بچوں پر سزا نہیں ہوگی لیکن ان اعمال کے اثرات باقی رہیں گے۔
چوری میں: سزا معاف ہوگی لیکن مال واپس کرنا ضروری ہوگا۔
قتل میں: قصاص معاف ہوگا لیکن دیت عاقلہ (رشتہ داروں) پر واجب ہوگی۔
نیک اعمال کے اجر کے حوالے سے:
اصولاً بلوغت سے پہلے بچوں کو اجر نہ ملنا چاہیے، لیکن نصوص سے ثابت ہے کہ بچوں کو نیک اعمال پر اجر دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"جو بھی نیک عمل کرے، وہ اجر پائے گا۔” (الکہف: 30)
یہاں "جو بھی” کا مطلب عام ہے، جو بچوں اور بڑوں، مردوں اور عورتوں سب کو شامل کرتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک عورت نے نبی ﷺ سے پوچھا:
"یا رسول اللہ! کیا اس بچے کے لیے حج کا ثواب ہے؟” آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں، اور تمہارے لیے بھی اجر ہے۔” (صحیح مسلم)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بچے کو اس کے نیک اعمال پر اجر ملتا ہے۔ نتیجہ:
بچوں کو بلوغت سے پہلے کیے گئے نیک اعمال پر اجر دیا جائے گا، جیسا کہ نصوص سے ثابت ہے۔