جواب:
پہلی بات:
سیدنا یوسف علیہ السلام نے جو کچھ کیا، وہ حق کے قیام یا دلیل کے لیے جائز حیلوں میں شامل ہے۔ شریعت نے ایسی حیلے جائز رکھے ہیں جو:
کسی شرعی اصول کو ختم نہ کریں۔
کسی ایسی مصلحت کے خلاف نہ ہوں جسے شریعت نے تسلیم کیا ہو۔
مثال کے طور پر، کسی پر جبر کے وقت کلمۂ کفر کہنا جائز ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر کشاف میں فرماتے ہیں:
"یہ کَید (تدبیر) ان شرعی حیلوں میں سے ہے جن کے ذریعے دینی مصلحتیں یا فائدے حاصل کیے جاتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ایوب علیہ السلام کو فرمایا:
"اور اپنے ہاتھ میں ایک مٹھی لے لو، پھر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔” (ص: 44)
اس کے ذریعے وہ اپنی قسم کے اثرات سے بچ گئے اور ان پر حنث (قسم توڑنے کا گناہ) لازم نہ آیا۔”
حنفی فقیہ حموی فرماتے ہیں:
"ہمارے علماء کا قول ہے کہ:
جو حیلہ کسی کے حق کو ختم کرنے، شبہ ڈالنے یا باطل کو درست ثابت کرنے کے لیے کیا جائے، وہ مکروہ (تحریمی) ہے۔
لیکن جو حیلہ کسی حرام سے بچنے یا حلال تک پہنچنے کے لیے ہو، وہ پسندیدہ ہے۔"
قرآن اور حدیث میں اس کی مثالیں موجود ہیں، جیسے:
سیدنا ایوب علیہ السلام کا واقعہ:
ایوب علیہ السلام کو اپنی بیوی کو سو کوڑے مارنے کی قسم پوری کرنی تھی، لیکن اللہ نے انہیں حکم دیا کہ سو تنکوں کا ایک گٹھا لے کر ایک دفعہ ماریں تاکہ قسم بھی پوری ہو جائے اور بیوی کو تکلیف بھی نہ ہو۔
زانی کا معاملہ:
حدیث میں آیا ہے کہ ایک کمزور شخص نے زنا کیا، اور رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے سو کوڑے مارے جائیں، لیکن اس کی کمزوری کی وجہ سے ایک ایسی تدبیر کی گئی کہ کھجور کی سو پتلی شاخوں کا گٹھا لے کر اسے ایک مرتبہ مارا گیا۔ (احمد، ابن ماجہ)
یہ سب جائز حیلوں کی مثالیں ہیں جو حق کے قیام یا مصلحت کے حصول کے لیے استعمال کی گئیں۔
دوسری بات:
ہر وقت سچ بولنا ضروری نہیں، کیونکہ گواہی کی دو قسمیں ہیں:
شہادتِ تحمل:
یہ معاملات کی گواہی ہے، جیسے نکاح، خرید و فروخت، قرض وغیرہ۔ اس میں اطلاع دینا لازمی نہیں بلکہ گواہ کا مقصد ثبوت فراہم کرنا ہوتا ہے۔
شہادتِ ادا:
یہ قاضی کے سامنے حق بیان کرنے کی گواہی ہے۔ اس میں حق کو چھپانا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اور گواہی نہ چھپاؤ، اور جو گواہی چھپاتا ہے، اس کا دل گناہگار ہے۔” (البقرہ: 283)
نتیجہ:
سیدنا یوسف علیہ السلام کا عمل شرعی حیلے کے زمرے میں آتا ہے، اور ان کے ذریعے دینی مصلحت کو پورا کیا گیا۔ لہٰذا، اگر کسی معاملے سے بچنے کے لیے حقائق چھپانا شرعی اصولوں کے خلاف نہ ہو اور اس سے حق یا مصلحت ثابت ہو، تو ایسا کرنا جائز ہے۔ البتہ، گواہی کے وقت حق کو چھپانا جائز نہیں ہے۔