جواب:
اللہ کی توفیق سے، میں عرض کرتا ہوں
پہلا نکتہ:
صفوں کو سیدھا کرنے کی ترغیب کئی احادیث میں دی گئی ہے، جیسا کہ بخاری اور مسلم کی روایت میں آیا ہے: "صفیں سیدھی کرو، کیونکہ صفوں کو سیدھا کرنا نماز کے مکمل ہونے کا حصہ ہے” یا "نماز قائم کرنے کا حصہ ہے” جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے۔ نبی ﷺ خود ابتدائی دور میں اس بات کا خیال رکھتے تھے جیسا کہ نعمان بن بشیر کی حدیث میں آیا ہے: "رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں اس طرح سیدھی کرتے تھے جیسے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے” [متفق علیہ]۔ صفوں میں بےترتیبی دلوں اور نیتوں میں اختلاف کا سبب بن سکتی ہے، جیسا کہ بخاری اور مسلم میں نعمان بن بشیر کی حدیث میں ہے: "تم ضرور اپنی صفیں سیدھی کرو گے یا اللہ تمہارے چہروں کو (دلوں کو) ایک دوسرے سے مختلف کر دے گا۔"
دوسرا نکتہ:
سنت میں آیا ہے کہ نبی ﷺ صحابہ کو صف کو سیدھا کرنے کے طریقے کی ہدایت دیتے تھے؛ جیسے فرمایا: "صفوں کو سیدھا کرو، کندھوں کو برابر کرو، خالی جگہوں کو پُر کرو، اور شیطان کے لئے خلا نہ چھوڑو۔” نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا ٹخنہ دوسرے کے ٹخنے کے ساتھ ملاتا تھا۔
یہ جو بیان کیا گیا ہے، اس کا مقصد خود سے نہیں بلکہ صفوں کو سیدھا کرنا ہے۔ تو جو بھی طریقہ صف کو سیدھا کرے، وہ جائز ہے۔
عبادت میں ٹخنوں کو جوڑنے کے عمل کی کوئی خاص اہمیت نہیں، کہ جس کی اتنی سختی کی جائے جیسا کہ کچھ لوگ کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض افراد اس کے لئے اتنے محتاط ہوتے ہیں کہ دوسرے کے ساتھ ٹخنے کو جوڑنے کی کوشش میں ان کے لئے پریشانی پیدا کر دیتے ہیں، جبکہ مساجد میں صفوں کے لئے خطوط موجود ہیں۔ نعمان بن بشیر کے قول پر غور کریں: "یہاں تک کہ ہم نے اسے سمجھ لیا”۔ تو وسایل کو غایات کے برابر درجہ دینا مناسب نہیں۔
تیسرا نکتہ:
صف کو سیدھا کرنے کا اصل اصول یہ ہے کہ اسے پیروں کے پچھلے حصے کے مطابق سیدھا کیا جائے، کیونکہ لوگوں کے پیروں کی لمبائی اور چھوٹائی میں فرق ہوتا ہے، اس لئے پیروں کے پچھلے حصے کے مطابق کندھے بھی سیدھے ہو جاتے ہیں۔
چوتھا نکتہ:
صف میں بیٹھنے والے کا حکم دو امور پر منحصر ہے:
اگر وہ پوری نماز بیٹھ کر ادا کرے تو وہ اپنی جگہ کو بیٹھنے کی جگہ سے صف کے برابر کرے، چاہے کرسی کے پیر تھوڑے آگے یا پیچھے ہوں۔ اس صورت میں اس کی نشست کے مقام کا حکم پیروں کا ہوگا۔
اگر کچھ نماز بیٹھ کر اور کچھ کھڑے ہو کر پڑھے تو کھڑے ہونے کی حالت میں صف کو سیدھا کرے گا، اور اس کا حکم کھڑے ہونے والے کا ہوگا۔
یہ مسئلہ اس صورت میں ہے کہ کرسی صف سے پیچھے ہٹ جائے گی، لہذا ان افراد کے لئے بہتر ہے کہ مسجد میں ان کے لئے مخصوص جگہ رکھی جائے، جیسے صفوں کے پیچھے یا کناروں پر۔ایسی احکام میں سنت سے کوئی قطعی نص موجود نہیں ہے، بلکہ یہ فتویٰ استقراء، قیاس، مصلحت، اور احکام کی حکمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور لوگوں کے حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے دیا گیا ہے، جیسا کہ شرعی مقاصد میں آیا ہے۔