جواب:
جو شخص اپنے عذر کے تحت نماز پڑھتا ہے اور عذر نماز کے وقت موجود تھا، تو عذر کے ختم ہونے کے بعد نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، چاہے عذر وقت میں ہو یا اس کے بعد۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں، جیسے:
اگر کسی شخص نے تیمم کر کے نماز پڑھی، پھر وقت کے اندر پانی مل گیا، تو اس پر نماز دوبارہ نہیں ہے۔ اس بارے میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ایک حدیث ہے کہ:
"دو شخص سفر پر نکلے اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، تو انہوں نے تیمم کر کے نماز پڑھی۔ پھر وہ وقت میں پانی پا گئے، تو ایک شخص نے وضو کیا اور نماز دوبارہ پڑھی، جبکہ دوسرے شخص نے دوبارہ نماز نہیں پڑھی۔ دونوں نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ‘جس نے دوبارہ نماز نہیں پڑھی، اس نے سنت پر عمل کیا اور اس کی نماز درست ہے‘۔ اور جس نے دوبارہ نماز پڑھی، اس کے لیے دو گناہ ہے"۔ [ابو داود، نسائی]
اگر کسی نے نماز کو جمع کر کے پڑھی، اور پھر وقت میں دوسری نماز کا وقت آ گیا، تو بھی اس پر دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں، یہ جمہور علماء کا موقف ہے۔
اگر کسی نے قصر کر کے نماز پڑھی اور پھر وقت سے پہلے واپس آ گیا، تو بھی اس پر نماز دوبارہ نہیں ہے۔
خلاصہ:
جو شخص اپنے عذر کے تحت نماز پڑھتا ہے اور عذر ختم ہونے کے بعد نماز کے وقت میں ہو یا اس کے بعد، اس پر نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے عذر کے تحت نماز ادا کر چکا ہے۔