View Categories

سوال344:حدیث شریف میں تَمر (کھجور) سے علاج کے بارے میں ذکر آیا ہے

):، جیسا کہ یہ روایت: «مَنْ تَصَبَّحَ سَبْعَ تَمَرَاتٍ عَجْوَةً لَمْ يَضُرُّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ سَمٌّ وَلَا سِحْرٌ» (جو شخص صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھائے، اس دن اسے نہ زہر نقصان پہنچائے گا اور نہ جادو)۔
شیخ، آپ کا کیا خیال ہے، ہمیں اس حدیث کو کیسے سمجھنا چاہیے؟

(ج):
یہ قسم کی احادیث اور روایات، اگر صحیح ہوں، تو انہیں وحی اور خبر سے منسوب کیا جاتا ہے، نہ کہ صرف حس اور تجربے سے۔
اگر ان کا دارومدار خبر پر ہو (یہاں خبر سے مراد حکم یا امر کے مقابل ہے، جیسا کہ: "تم پر لازم ہے کہ کھاؤ” یہ امر ہوگا، یا "اگر تم کھاؤ تو…” یہ شرط ہوگی)، تو ان احادیث کو سند کے لحاظ سے پرکھنا ضروری ہے۔ ان کی سند صحیح ہو، کسی قطعی علمی حقیقت سے متصادم نہ ہو، اور کسی قوی تر دلیل کے خلاف نہ ہو۔
اگر یہ شرائط پوری ہوں، تو ان پر عمل تعبدًا کیا جائے گا، چاہے ان کی حکمت سمجھ نہ آئے۔

حدیثِ تمرات (کھجور کی حدیث) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص ہر روز صبح سات عجوہ کھجوریں کھائے، اس دن نہ زہر اس پر اثر کرے گا اور نہ جادو”۔

ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص صبح کے وقت مدینہ کی دونوں حرّات کے درمیان اگنے والی سات کھجوریں کھائے، اسے زہر کوئی نقصان نہیں دے گا”۔
مدینہ کی حرّات وہ علاقے ہیں جن کی زمین پر کالے پتھر ہیں۔

اس حدیث کے فقہ سے یہ سمجھ آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کی کھجوروں کی خاصیت یا تو وحی کے ذریعے معلوم کی، یا تجربے سے۔ اگر یہ وحی کے ذریعے معلوم ہو تو یہ امت کے لیے ایک عمومی خبر ہوگی۔
اگر یہ تجربے سے معلوم ہو تو یہ ایک فطری علاج کی طرف رہنمائی ہوگی، کیونکہ کسی علاقے کی پیداوار وہاں کے لوگوں کی صحت کے لیے موزوں ہوتی ہے۔

اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے بعض اوقات دوا تیار کرنے کے لیے مخصوص ہدایات دی ہیں، جیسے کہ سات عجوہ کھجوروں کو نچوڑ کر تیار کی گئی دوا کا ذکر۔

خلاصہ:

  • یہ حدیث دوا اور علاج کے لیے نبی اکرم ﷺ کی رہنمائی پر مبنی ہے، اور خاص طور پر مدینہ کی عجوہ کھجوروں کے فوائد کو اجاگر کرتی ہے۔
  • زہر کے اثر کے خلاف عجوہ کا استعمال جسم کی قوتِ مدافعت کو مضبوط کرتا ہے، جو اسے بطور تریاق مؤثر بناتا ہے۔
  • سحر کے اثر کے خلاف اس کا فائدہ زیادہ معنوی اور روحانی اثرات پر مبنی معلوم ہوتا ہے، جو نبی ﷺ کی برکت اور مدینہ کے لیے آپ ﷺ کی دعاؤں سے جڑا ہوا ہے۔