ج): جواب میں تفصیلات شامل ہیں:
اولاً: ولی کے بغیر نکاح کی صحت:
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ علماء کرام کے درمیان نکاح کے ارکان پر اختلاف ہے:
- شافعیہ کے نزدیک نکاح کے پانچ ارکان ہیں: زوج، زوجہ، صیغہ، ولی، اور گواہ۔
- امام غزالی نے شافعیہ میں چار ارکان ذکر کیے ہیں: صیغہ، گواہ، محل (بیوی) اور عاقد (ولی)۔
- مالکیہ کے نزدیک نکاح کے ارکان پانچ ہیں: ولی، صداق، زوج، زوجہ، اور صیغہ۔
- بعض مالکیہ علماء نے دَرْدِیْر کے مطابق تین ارکان ذکر کیے ہیں: ولی، محل (زوج و زوجہ) اور صیغہ۔ صداق کو شرط قرار دیا اور اس پر نکاح کی صحت کا انحصار نہیں۔
- حنفیہ اور بعض حنبلیہ کے نزدیک نکاح کے لیے ایک رکن ہی کافی ہے، وہ ہے ایجاب و قبول، اور دونوں کو اس کی ضروریات کے طور پر قرار دیا گیا۔
- حنابلہ کے دوسرے قول کے مطابق ارکان تین ہیں: زوجین، ایجاب و قبول۔
جماعت مسلمہ کا اجماع ہے کہ نکاح ولی کے بغیر نہیں ہوسکتا، اور عورت اپنے آپ کو یا کسی اور کو نکاح دینے کی اجازت نہیں رکھتی۔ اس رائے پر صحابہ کرام جیسے حضرت عمر، علی، ابن عباس، عائشہ، ابو ہریرہ اور دیگر نے اتفاق کیا تھا۔ اس رائے کو تابعین جیسے حسن، سعید بن المسیب، ثوری، ابن المبارک اور دیگر نے اپنایا، نیز یہ رائے امام شافعی، حنبلیہ اور ظاہرہ کے مسلک کی بھی ہے۔ امام مالک نے ایک قول میں شریف اور دنیہ (اجتماعی درجہ) میں فرق کیا۔
دوسرا: غیر مسلم کی گواہی سے عقد کی صحت:
اس سے قبل بیان کردہ ارکان نکاح میں گواہ بھی شامل ہیں۔ بعض فقہاء نے گواہ کو رکن قرار دیا، بعض نے نہیں، لیکن فقہاء کے نزدیک گواہ کا اثر عقد کی صحت پر پڑتا ہے چاہے اسے رکن نہ بھی سمجھا جائے:
- اکثر فقہاء (شافعیہ، حنفیہ اور حنبلیہ) کے مطابق نکاح کے لیے دو عادل گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔
- بعض حنبلیہ نے کہا کہ نکاح بغیر گواہ کے بھی صحیح ہو سکتا ہے، جیسے بیع اور ہبہ۔
- مالکیہ کے مطابق گواہی کا عمل واجب ہے جب دخول ہو، ورنہ عقد کے وقت یہ مستحب ہوتا ہے۔
- ابن حزم نے کہا کہ عقد کی صحت کے لیے گواہی یا عمومی اطلاع ضروری ہے۔
غیر مسلم کی گواہی کے بارے میں:
اگر دونوں طرف مسلمان ہوں تو شواہد میں بھی مسلمان ہونا ضروری ہے، اور غیر مسلم کی گواہی صحیح نہیں ہوگی۔ تاہم، اگر بیوی کتابی (اہل کتاب) ہو تو بعض فقہاء نے غیر مسلم کی گواہی کو جائز قرار دیا۔
فتویٰ کی روشنی میں:
اس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ نکاح میں کمی رہی ہے جس کی بنا پر یہ نکاح جماعت کے اکثریتی علماء کے نزدیک باطل ہوگا کیونکہ ولی اور گواہ موجود نہیں تھے۔
میرے خیال میں، اگر لڑکی نے دخول نہیں کیا تو اسے دوبارہ نکاح کرنا چاہیے، کم از کم دو مسلم گواہوں کی موجودگی میں، اور اس کے لیے خود عقد کر سکتی ہے یا اپنی والدہ کو اس کا ولی بنا کر عقد کر سکتی ہے (احناف کے مسلک کے مطابق)۔ اگر دخول ہو چکا ہے تو اس عقد کو تلفیق کے ذریعے درست کیا جا سکتا ہے، احناف اور مالکیہ کے مسلک کو ملا کر، بشرطیکہ نکاح کی اطلاع مقامی جماعت میں دی جائے۔