خشوع کے مفہوم کے مختلف پہلو:
١- لغوی اعتبار سے:
خشوع کا مطلب عاجزی، انکساری، اور عاجزی کے ساتھ جھکنا ہے۔ ابن فارس، ابن منظور اور فیروزآبادی نے اس کی یہی تعریف بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ” [الغاشیہ: 2]، یعنی عاجز اور جھکی ہوئی۔
٢- اصطلاحی معنی (مفسرین اور فقہاء کے نزدیک):
دل کی ایک ایسی کیفیت جو اطاعت اور عبادت کے دوران اعضا پر ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ دل کا عمل ہے، لیکن اس کا اثر جسمانی حرکات و سکنات پر بھی لازمی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ریاکارانہ خشوع سے بچو۔” پوچھا گیا: "ریاکارانہ خشوع کیا ہے؟” جواب دیا: "ایسا خشوع جو جسمانی طور پر نظر آئے لیکن دل اس میں شریک نہ ہو۔”
٣- اہلِ حقیقت کی اصطلاح میں:
خشوع مختلف مراحل میں مختلف صورتیں اختیار کرتا ہے:
- ابتداء: اطاعت میں اعضا کا جھکنا۔
- دروازے: نفس میں انکسار۔
- معاملات: نفس کی کمزوریوں کو پہچانتے ہوئے خود کو معمولی سمجھنا۔
- اخلاق: طبیعت کی آگ کا بجھ جانا اور دوسروں کے فضائل کا اعتراف۔
- احوال: حالات کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کرنا۔
- ولایت: صفائی کی انتہا تک پہنچ کر فنا۔
- حقائق: بندے کی صفات کا حق کی صفات میں گم ہو جانا۔
- نہایت: بقیہ ہر چیز سے دور ہو کر اللہ کے ساتھ کامل تعلق۔
یہاں خشوع دل کی عاجزی اور انکساری کی وہ کیفیت ہے جو اعضا میں ظاہر ہوتی ہے، مثلاً:
- آنکھوں کا خشوع: غیر ضروری ادھر اُدھر نہ دیکھنا۔
- ہاتھوں کا خشوع: صرف عبادت کے اعمال میں حرکت کرنا۔
- جسم کا خشوع: قیام، رکوع، اور سجدے میں مکمل استقامت۔
- دل اور روح کا خشوع: مادی دنیا سے ہٹ کر روحانی دنیا میں گم ہو جانا۔
مثال:
تابعی حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، جن کی ٹانگ بیماری کی وجہ سے کاٹنی پڑی۔ انہوں نے نشہ آور چیز کے ذریعے درد سے بچنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نماز میں ہوں اور تشہد کے دوران بیٹھا ہوں، تب میری ٹانگ کاٹ دو، کیونکہ اس وقت میرا دل اللہ کے سوا کسی اور کی طرف مائل نہیں ہوگا۔
٤- خشوع کی اہمیت:
خشوع وہ پہلا عمل ہے جو بندوں کے اعمال سے اٹھا لیا جائے گا۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ذکر ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا اور خشوع کی کمی اس کی علامت ہوگی۔
خشوع کے بنیادی عناصر:
- ذہنی طور پر مکمل حاضر رہنا۔
- استقامت اور سکون کے ساتھ عمل کرنا۔
- اللہ کی عظمت کو اپنے دل میں حاضر رکھنا۔