View Categories

سوال104): اکثر اوقات کام یا معاملات کے دوران، خاص طور پر مغربی ممالک میں، ایک تحفہ پیش کیا جاتا ہے، اور اس میں شراب شامل ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں اس تحفے کے ساتھ کیا کرنا چاہیے، اور جس شخص نے یہ تحفہ دیا ہے، اس کے ساتھ کس طرح برتاؤ کرنا چاہیے؟ کیا اگر ہم اس تحفے کو اپنے ساتھ کام کرنے والے غیر مسلم شخص کو دے دیں تو کیا ہمیں گناہ ہوگا؟

جواب:

پہلا:

تحفہ کسی کے بغیر کسی عوض کے مال کا انتقال ہے، جس کا مقصد ہبہ، عزت، محبت، تعلق، یا انعام دینا ہوتا ہے۔ لہذا یہ عطیات کے زمرے میں آتا ہے، نہ کہ معاوضے کے۔

نبی کریم ﷺ نے محبت کے مقصد سے تحفے دینے کی ترغیب دی ہے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: «تَهَادُوا تَحَابُّوا» (تحفے دو، محبت بڑھاؤ)۔ اور فرمایا: «يَا نِسَاءَ الْمُسْلِمَاتِ، لَا تَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ فِرْسِنَ شَاةٍ» (اے مسلم عورتوں! اپنی ہمسائیوں کو حقیر نہ جاننا چاہیئے، چاہے وہ ایک بھیڑ کے ایک چھوٹے سے گوشت کا ٹکڑا ہی ہو)۔

اکثر فقہاء نے تحفہ قبول کرنا مستحب سمجھا ہے، اور یہ احناف، مالکیہ، شافعیہ کے عمومی مذہب میں شامل ہے، جبکہ حنابلہ کے ایک قول کے مطابق، اگر تحفہ بغیر طلب کے دیا گیا ہو تو اسے قبول کرنا واجب ہے۔

دوسرا:

فقہاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مالک کی جانب سے اپنے ملازمین کو عینی تحائف دینا جائز ہے، اور انہوں نے تحفے کی صورت میں فوائد دینے پر اختلاف کیا ہے، جیسے کہ کسی کو مفت تربیتی کورس دینا، یا ایک جگہ سے دوسری جگہ مفت لے جانا، یا کسی مخصوص تفریح گاہ میں چھٹی گزارنے کا موقع دینا وغیرہ۔ بعض مذاہب نے اس کو تحفہ نہیں سمجھا، جبکہ اکثر کا خیال ہے کہ یہ منفعت کا ہبہ ہے، اور احناف کے نزدیک یہ منفعت کی عاریہ ہے۔

بہت سے معاصر فقہاء نے بھی اس قسم کے تحائف کو تسلیم کیا ہے کیونکہ یہ عینی قیمت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

اور اللہ بہتر جانتا ہے

تیسرا:

 عینی چیزیں یا تو مالی حیثیت رکھتی ہیں یا غیر مالی۔ مالی وہ ہیں جنہیں مسلمان حاصل کر سکتا ہے اور جن سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہے، جبکہ غیر مالی وہ ہیں جن سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں، جیسے کہ حرام چیزیں جیسے خنزیر کا گوشت، شراب، جوئے کا مال، وغیرہ۔ غیر مالی چیزیں مسلمان کے لیے کاروبار کے لحاظ سے فروخت، کرایہ، یا ہبہ کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ نہ لینے کی اجازت ہے اور نہ دینے کی، چاہے بدلے میں ہو یا بغیر بدلے۔

جو شخص اس قسم کی چیزوں میں سے کسی چیز کا مالک ہو جائے، تو اس کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں کیونکہ یہ ناپاک ہے، اور نہ وہ اسے اپنے لیے استعمال کر سکتا ہے اور نہ کسی اور کے لیے۔ نبی ﷺ نے جب مسلمانوں پر شراب کو حرام قرار دیا تو انہیں یہ اجازت نہیں دی کہ وہ یہودیوں یا مشرکوں کو تحفے کے طور پر دیں، اور نہ ہی انہیں شہر میں غیر مسلمانوں کو بیچنے کی اجازت دی، کیونکہ بیع باطل ہے، اور یہ فقہاء کا عمومی رائے ہے۔

صرف احناف نے اس معاملے میں ایک استثناء پیش کیا ہے، جس میں انہوں نے دار الاسلام اور دار کفر کے درمیان تفریق کی، اور انہوں نے یہ اجازت دی کہ مسلمان دار کفر میں غیر مسلمان کو غیر مالی چیزیں بیچ سکتا ہے، اگرچہ یہ عقد فاسد ہو۔ انہوں نے فساد عقد کو فائدہ اٹھانے میں مانع نہیں سمجھا۔

چنانچہ اس سوال کا جواب یہ ہے: مسلمان کے لیے اس ہدیے کے حرام حصے سے اپنے لیے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، اس کے سوا اس کے پاس صرف اسے ختم کرنے کا راستہ ہے، اور اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اسے غیر مسلم کو دار کفر میں بیچے اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھائے، جیسا کہ احناف کا قول ہے۔ اس کے لیے غیر مسلم کو تحفے کے طور پر دینا جائز نہیں کیونکہ یہ دراصل غیر مالی چیز ہے۔اور اللہ بہتر جانتا ہے