View Categories

سوال13 اگر کسی نے ظہر کی نماز کے وقت سے پہلے اپنے گھر سے نکل کر کچھ ضروریات پوری کرنے کا ارادہ کیا، اور عصر کی نماز کا وقت قریب آ گیا لیکن اسے وضو یا نماز کے لئے کوئی جگہ نہیں ملی، کیا وہ گھر واپس آ کر نمازیں جمع کرنے کا ارادہ کر سکتا ہے؟ یا یہاں ظہر کی نماز قضا کرنا ضروری ہے؟

جواب:
یہ نمازیں جمع کرنے کے مسائل میں سے ایک سوال ہے، جو نیت جمع کے مسئلے سے متعلق ہے۔
پہلا: میں سب کو یاد دلاتا ہوں کہ علماء کے مذاہب میں جمع کے مسئلے پر کیا کچھ کہا گیا ہے؛ جمع کے دو طرف اور ایک وسط ہے؛ احناف جمع کو صرف عرفہ اور مزدلفہ میں جائز سمجھتے ہیں، ہنابلہ جمع کی اجازت دیتے ہیں چاہے کوئی عذر نہ بھی ہو، جبکہ شافعی اور مالکیہ خاص شرائط کے ساتھ جمع کی اجازت دیتے ہیں۔

دوسرا: علماء نے جمع تأخیر کے لئے پیشگی نیت شرط رکھی ہے، اور اس کے لئے دو شرطیں ہیں

پہلی نماز کی ادائیگی کے وقت نیت کرنا ضروری ہے، نہ کہ قضا کے وقت۔

پہلی نماز کی ادائیگی کے لئے وقت تنگ نہ ہو۔

اس کے مطابق: اگر وہ اپنے گھر سے نکل گیا ہے اور ظہر کی نماز نہیں پڑھی تو وہ عصر کے ساتھ جمع کی نیت کر سکتا ہے، جب تک کہ ظہر کا وقت نہ نکل جائے، یعنی عصر کے اذان سے بیس منٹ پہلے۔ اگر صورت حال ایسی ہو تو اس کے لئے جمع کرنا جائز ہے، ورنہ ظہر قضا ہو جائے گی۔

یہی بات شافعی اور حنبلہ کے ائمہ کے مطابق ہے۔تیسرا: جہاں تک جمعِ تقدیم کا تعلق ہے، شافعی اور حنبلہ نے بھی نیتِ جمع کی شرط رکھی ہے کہ وہ پہلی نماز سے پہلے ہونی چاہیے، جیسا کہ انہوں نے دونوں نمازوں کے درمیان توالی کی شرط رکھی ہے۔ جبکہ ابن تیمیہ نے یہ کہا کہ نیتِ مسبقہ ضروری نہیں، اور پہلی نماز کے ختم ہونے کے بعد اور دوسری نماز سے پہلے نیت کرنا جائز ہے، چاہے اس کے درمیان کوئی فاصلہ ہو، جب تک دوسری نماز کا وقت نہ داخل ہو۔