جواب)
یہ کوئی نبی کی حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے، جیسا کہ بخاری نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے: «ابن عباس نے مجھے کہا: کیا تم نے شادی کی؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: تو شادی کر لو، کیونکہ اس امت میں خیر زیادہ تر عورتوں میں ہےاور ابن عباس کے کلام اور نبی اعظم ﷺ کی حدیث میں کوئی تناقض نہیں ہے، جیسا کہ ابن عباس اور عمران بن حصین کی روایت میں ہے: «میں نے دوزخ میں جھانکا تو دیکھا کہ اس کے زیادہ تر اہل خواتین ہیں، اور جنت میں جھانکا تو دیکھا کہ اس کے زیادہ تر اہل فقراء ہیں»۔
پہلا: کیونکہ ابن عباس کے کلام میں خیر کی اصطلاح دنیا کی خیر اور اس کی صلاح سے مراد ہے؛ جہاں آدمی کو وہ چیز ملتی ہے جو اسے حرام سے بچاتی ہے، اور یہ صرف عورت کے موجود ہونے سے ہی ممکن ہے۔ جب تعداد ہو، تو مرد کے پاس نکاح کرنے کا موقع زیادہ ہوتا ہے، جیسا کہ نسل اور تکثیر کا موقع بھی ملتا ہے، اور یہ سب کچھ صرف زیادہ عورتوں کے ہونے سے ہی ہوتا ہے۔
دوسرا: نبی اعظم ﷺ کی حدیث تعداد پر زیادہ زور نہیں دیتی بلکہ اس کا زور دوزخ میں جانے کے اسباب پر ہے، کیونکہ یہ نصیحت کے سیاق میں ہے، یہ خبر کی شکل میں ایک تشکیل ہے۔