View Categories

سوال178): کیا ایسے افراد کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے جو عربی نہیں بولتے؟ جہاں قرآن کے الفاظ کی ادائیگی اور قواعدِ تلفظ میں غلطیاں ہیں، اور وہ اذان یا نماز کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، تو ایسی حالت میں صحیح عمل کیا ہے؟

جواب):
پہلا: صرف یہ کہ کوئی شخص عربی نہیں بولتا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی قرآن کی تلاوت میں غلطی ہو۔ قرآن کا خاص نظام اور ترتیبات ایسی ہیں کہ غیر عربی بولنے والے بھی قرآن کو درست طریقے سے پڑھ سکتے ہیں۔ بہت سے غیر عربی بولنے والے افراد بھی قرآن کی صحیح تلاوت کرتے ہیں، اور ان کی تعداد کم نہیں ہے۔

دوسرا: صحیح قرآن کی تلاوت کے لیے جو اہم بات ہے وہ ہے تلفظ کے اصولوں اور تجوید کی رعایت۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ قرآن کے الفاظ کی ادائیگی صحیح طریقے سے ہو، نہ کہ اس بات کی کہ قاری عربی بولتا ہے یا نہیں۔

تیسرا:

جہاں تک علمائے کرام کا اختلاف ہے کہ نماز میں قرآن کی تلاوت میں غلطی کرنے والے کا کیا حکم ہے، تو اس بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، اور ایک ہی مذہب میں بھی سختی اور نرمی کا فرق ہے۔ اس کا مدار بعض اہم باتوں پر ہے:

کیا قاری عام طور پر قرآن کی درست تلاوت کرتا ہے یا صرف وہی پڑھتا ہے جو صحیح نہ ہو؟

کیا غلطی معنی کو بدل دیتی ہے یا نہیں؟

کیا غلطی امام سے ہو رہی ہے یا انفرادی طور پر؟

اگر امام ہے تو کیا اس کے پیچھے کوئی ایسا شخص موجود ہے جو اس سے بہتر تلاوت جانتا ہو؟

چوتھا: اس مسئلے میں مختلف مذاہب کی آراء کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:

احناف:

اگر تلاوت میں جلی لحن (غلطی جو معنی کو بدل دے) ہو، جیسے کہ کاف کو کسرہ دے کر پڑھنا، تو نماز باطل ہو جاتی ہے۔

اگر معنی میں واضح تبدیلی ہو، جیسے "مثل هذا الغبار” کو "مثل هذا الغبار” پڑھنا، تو نماز باطل ہو جاتی ہے۔

اگر غلطی میں قرآن میں کوئی مماثلت موجود ہو، تو احناف کا اختلاف ہے: بعض کہتے ہیں کہ نماز فاسد ہو جاتی ہے، جب کہ بعض کہتے ہیں کہ نماز صحیح رہتی ہے۔

اگر غلطی بغیر معنی کے ہو، جیسے قیام کو "قیامین” پڑھنا، تو امام اور محمد بن الحسن کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوتی۔

متأخرین احناف:

متأخرین کا کہنا ہے کہ اعراب کی غلطی نماز کو باطل نہیں کرتی، کیونکہ لوگوں کی کم علمیت کی وجہ سے یہ مسئلہ کم اہمیت کا حامل ہے۔

تلفظ کی غلطی اگر صاف طور پر نمایاں ہو، تو نماز فاسد ہو جاتی ہے، لیکن اگر یہ کوئی عام غلطی ہو (جیسے ضاد کو ظاء اور صاد کو سین پڑھنا)، تو نماز فاسد نہیں ہوتی۔

مالکیہ:

مالکیہ کے نزدیک، تمام قسم کی لحن کی غلطیوں کے باوجود نماز فاسد نہیں ہوتی، چاہے وہ فاتحہ میں ہو یا کسی اور جگہ۔ تاہم، جو شخص غلطی کرتا ہے جو معنی کو بدل دیتی ہے، وہ گناہگار ہوتا ہے۔

شافعیہ اور حنبلیہ:

شافعیہ اور حنبلیہ کے نزدیک، وہ فرق کرتے ہیں کہ غلطی فاتحہ میں ہو یا کسی اور سورۃ میں۔

اگر امام فاتحہ میں غلطی کرتا ہے، تو نماز میں گہرائی سے تجزیہ کیا جاتا ہے کہ غلطی معنی کو بدلتی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں بدلتی، تو نماز صحیح رہتی ہے، مگر کراہت کے ساتھ۔

اگر غلطی معنی کو بدل دیتی ہے، تو پھر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قاری میں قرآن کی درست تلاوت سیکھنے کی صلاحیت تھی اور وہ غفلت کا شکار تھا یا نہیں۔

اگر پہلی صورت میں غلطی ہوگئی تو اس کی نماز باطل ہوگئی اور ان کو دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی؛ لیکن اگر اسلام کے قریب آنے کی وجہ سے یا زبان کی معذوری کی بنا پر پڑھنے میں مشکل ہو تو اس کی نماز درست ہے، اور ان کی نماز بھی درست ہوگی کیونکہ ان کی نماز امام کی نماز کے مطابق ہوگی۔
یہ چاروں مذاہب کا خلاصہ ہے۔
رائے:
 فتویٰ دیتے وقت ہمیں حالت قبل وقوع اور بعد وقوع کے درمیان فرق کرنا چاہیے۔ وقوع سے پہلے ہمیں سختی دکھانی چاہیے اور لوگوں کو شدت سے روکا جائے کہ وہ صحیح قاری امام کو اپنائیں، جیسے کہ حدیث میں ذکر ہے۔ لیکن وقوع کے بعد، آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم مالکیوں کے قول پر عمل کریں جو کہتے ہیں کہ ہر حال میں نماز صحیح ہے