View Categories

سوال184):اگر میں اکیلا نماز پڑھ رہا ہوں، تو کیا ظہر اور عصر میں بلند آواز سے تلاوت کرنا جائز ہے؟

جواب):
پہلا: نماز میں اصل بات یہ ہے کہ ہم نبی
کے طریقے کی پیروی کریں، جیسا کہ آپ نے فرمایا: ” نماز ایسے پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ” (جیسے میں نماز پڑھتا ہوں، تم بھی ویسا ہی پڑھو)۔
اس کے مطابق، جو چیز نبی
نے بلند آواز سے پڑھی، اس کا اتباع بلند آواز میں کرنا ضروری ہے، اور جو چیز نبی نے آہستہ پڑھی، اس کا اتباع آہستہ کرنا ضروری ہے۔
لہذا، سنت کے مطابق امام کے لیے فجر کی دو رکعتوں اور مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے تلاوت کرنا ضروری ہے، اور اگر اکیلا آدمی ان نمازوں کو پڑھے تو اسے بھی بلند آواز سے پڑھنا چاہیے۔
اسی طرح، سنت ہے کہ ظہر، عصر، مغرب کی تیسری رکعت، اور عشاء کی آخری دو رکعتوں میں تلاوت آہستہ (سر) کی جائے۔
دوسرا: بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ نبی
کی تلاوت کبھی کبھار سنائی دیتی تھی، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سر کی نماز میں آواز کرنا جائز ہے، اور نبی نے یہ اس لئے کیا تھا تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ ہر نماز میں کیا پڑھا جا رہا ہے۔
تیسرا: فقہاء کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی نماز میں جو آہستہ پڑھنی چاہیے، بلند آواز سے پڑھے، تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟

احناف کے مطابق، اگر کسی نے ظہر یا عصر کی نماز میں بلند آواز سے تلاوت کی، تو اس کی نماز درست ہوگی لیکن اسے سجدہ سهو کرنا پڑے گا۔مالکیہ کے مطابق بھی نماز درست ہے اور سجدہ سهو کیا جائے گا، لیکن اگر بلند آواز بہت زیادہ نہ ہو تو یہ بھی جائز ہے