View Categories

سوال192): قصر نماز کے احکام اور اس کی شرائط کیا ہیں؟

جواب):
نماز میں قصر کرنے کے لئے کچھ شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہ شرائط عموماً متفق علیہ ہیں، مگر بعض تفصیلات میں اختلاف ہے۔ ان شرائط کا بیان درج ذیل ہے:

سفر کا ارادہ:
یہاں مقصد یہ ہے کہ شخص اپنے وطن یا رہائش گاہ کو چھوڑ کر عرفی سفر کی نیت کرے، نہ کہ بے مقصد ملک میں ادھر ادھر گھومنا۔

سفر کی مدت:
فقہاء نے اس مدت میں اختلاف کیا ہے جس کے بعد سفر کا حکم ختم ہو جاتا ہے اور قیام کا حکم شروع ہو جاتا ہے:

جمہور (مالکیہ، شافعیہ، اور بعض حنبلیہ کا قول):
اگر کسی نے اپنے شہر سے باہر چار دن یا اس سے زیادہ رہنے کا ارادہ کیا ہو تو اسے قصر نماز کی اجازت نہیں ہوگی۔ فقہاء نے دنوں کی گنتی میں بھی اختلاف کیا:

امام احمد نے داخلے اور نکلنے کے دن کو بھی چار دنوں میں شمار کیا۔

مالکیہ اور شافعیہ نے ان دنوں کو شمار نہیں کیا۔

یہ استدلال اہل مدینہ کے عمل اور نبی کی اجازت پر مبنی تھا کہ مہاجرین کو مکہ میں تین دن تک قیام کی اجازت تھی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد قیام شمار ہوتا ہے۔

حنفیہ کا قول:
اگر کسی نے پانچ عشرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کرنے کا ارادہ کیا ہو تو وہ مقیم شمار ہوگا اور قصر نماز نہیں کر سکے گا۔ اگر قیام کا ارادہ نہ ہو تو خواہ مدت کتنی ہی طویل ہو، قصر نماز جائز ہے۔

اس قول کی دلیل عمر اور ابن عباس کی حدیث ہے: «اگر تم کسی شہر میں آ کر پندرہ دن یا اس سے کم قیام کرنے کا ارادہ رکھتے ہو تو نماز مکمل کرو، چاہے تمہیں معلوم نہ ہو کہ کب روانہ ہو گے۔»

شافعیہ اور اسحاق بن راہویہ کا قول:
ان کے مطابق قصر کا وقت 19 دن ہے، اس سے زیادہ ہونے پر نماز مکمل کرنی ہوگی۔

ابن تیمیہ کا قول:
ابن تیمیہ اور ان کے ہم خیال فقہاء کے مطابق سفر کا تعلق مدت سے نہیں بلکہ اس کی نوعیت سے ہے۔ جب تک انسان اپنے وطن سے باہر ہے اور عرف عام میں وہ مسافر شمار ہوتا ہے، اس کا سفر برقرار رہتا ہے اور اسے قصر نماز کی اجازت ہے۔

نیز نیت کی تبدیلی کا اثر:

اگر کسی نے سفر میں 15 دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ کیا ہے اور وہ حنفی مسلک پر عمل کر رہا ہے تو اسے شروع سے ہی قصر نماز کی اجازت نہیں ہوگی۔

اگر کسی نے ابتدائی طور پر قصر کی مدت مکمل کر لی ہو اور اس کے بعد سفر کی مدت کم ہو جائے تو اگر یہ تبدیلی سفر کے آغاز سے پہلے ہو تو وہ قصر کر سکتا ہے، مگر اگر یہ تبدیلی سفر کے بعد ہو تو پھر اسے مقیم شمار کیا جائے گا اور قصر نماز کی اجازت نہیں ہوگی۔

اگر کسی نے سفر کا ارادہ کیا ہو اور اس کے بعد نیت بدل کر کسی دوسرے مسلک پر عمل کرنا چاہے تو وہ اس نئے مسلک کی تمام شرائط کی پیروی کرے گا۔

خلاصہ:
قصر نماز کے لئے سفر کا ارادہ اور اس کی مدت اہم ہے۔ مختلف مسالک میں سفر کی مدت کا تعین مختلف ہے، مگر ان تمام مسالک میں قصر نماز کی اجازت کے لئے سفر کی نیت اور مدت کا پورا ہونا ضروری ہے۔

تیسرا: سفر کی مسافت جو قصر نماز کے لیے معتبر ہے:

علماء کرام نے اس بات پر اختلاف کیا ہے کہ وہ کون سی مسافت ہے جسے سفر قرار دیا جائے گا، اور جس کے نتیجے میں مختلف احکام تبدیل ہو جاتے ہیں جیسے قصر نماز، جمع کا انعقاد، روزہ افطار کرنا، اور فرضیتِ جمعہ کا ساقط ہونا۔ اس حوالے سے مختلف فقہی مذاہب کی تفصیل درج ذیل ہے:

جماعت کا مذہب (مالکیہ، شافعیہ، حنبلیہ): یہ مذہب امام ابو یوسف کے قول کے مطابق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قصر نماز کی مسافت چار برد (چار دن کی مسافت) ہے، جو تقریباً 88 کلومیٹر کے برابر ہوتی ہے (تقریباً 54 میل)۔ بعض نے اسے 84 کلومیٹر یعنی 52 میل کے قریب بھی بیان کیا ہے۔ استدلال:

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: «اے اہل مکہ! تم چار برد سے کم مسافت پر قصر نہ کرو، اور یہ مکہ سے طائف اور عسفان تک ہے» [الشوکانی، نيل الأوطار]۔

عطاء سے مروی ہے کہ ابن عباس سے سوال کیا گیا: «کیا عرفات تک نماز قصر کی جا سکتی ہے؟»، تو انہوں نے جواب دیا: «نہیں، مگر عسفان، جدہ، اور طائف تک» [الموطأ]۔

عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے: «ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما چار برد یا اس سے زائد کی مسافت پر قصر اور افطار کرتے تھے» [البخاری]۔

سالم اور نافع سے مروی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ وہ اپنے پورے سفر میں قصر کرتے تھے جو چار برد کے برابر ہوتا تھا [الموطأ]۔

مذہب حنفیہ:

 حنفیہ کے مطابق قصر نماز کی مسافت وہ ہے جو ایک مسافر تین دن کی درمیانی رفتار سے چل کر طے کرتا ہے۔ استدلال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: «مسافر تین دن اور ان کی راتوں تک مسح کرتا ہے» [ابن ماجہ]۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مسافر کو یہ رعایت حاصل ہے، اور تین دن کی مدت پر اجماع ہے، جو کہ عبادت کے معاملے میں متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے۔ امام شافعی نے اسے زیادہ احتیاطی قرار دیا ہے۔ اس مسافت کی مقدار عوام کے متعارف سفر سے ایک دن کے درمیانی سفر سے زیادہ ہوگی۔

مذہب ظاہرہ اور حنبلیہ کا ایک قول (ابن تیمیہ، ابن قیم اور الشوکانی کا قول): ان کے نزدیک قصر نماز کے لیے کوئی خاص مسافت مقرر نہیں ہے۔ ہر وہ شخص جو سفر پر نکلے، چاہے سفر مختصر ہو یا طویل، اس کے لیے قصر نماز کی اجازت ہے۔ استدلال: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ} [نساء: 101] جس میں عمومی سفر کی اجازت دی گئی ہے، اور یہ قریبی یا دور دونوں طرح کے سفر پر منطبق ہوتا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «میں نے کبھی سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی» اور اس کا اطلاق ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنهم پر بھی ہوتا ہے۔ ابن عمر نے فرمایا: «اگر میں میل بھر سفر بھی کرتا تو نماز قصر کرتا»۔ یاد رکھنے کی باتیں:

مسافت شہر کی حدود سے باہر شروع ہوتی ہے، نہ کہ گھر سے، اور شہر کی حدود عموماً اس کے باہر کے علاقے یا مشہور مقامات جیسے ایئرپورٹ، بندرگاہ، یا ریلوے اسٹیشن سے متعین ہوتی ہیں۔

یہ ضروری نہیں کہ مسافت سیدھی ہو، اگر سفر میں پہاڑوں یا جنگلوں سے گزرنا پڑے تو یہ مسافت قابلِ قبول ہے۔

سفر کی وسيلة کا اثر نہیں ہوتا، یعنی پیدل چلنے والے، اونٹ پر سفر کرنے والے، کشتی یا طیارے میں سفر کرنے والے، یا گاڑی میں سفر کرنے والے سب کے لیے ایک ہی حکم ہے۔

قصر نماز صرف سفر کے شروع ہونے کے بعد جائز ہے، اور سفر کے مقصد تک پہنچنے سے پہلے نہیں، چاہے نیت کی ہو۔ اس کے علاوہ، نیت اور حالت پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔

جو شخص ظاہرہ کے قول پر عمل کرے، وہ شہر سے باہر جانے کے بعد ہی قصر کرے گا۔

جو شخص ایک مختصر سفر کی نیت کرے، مگر بعد میں اسے سفر میں طویل مسافت طے کرنا پڑے، تو وہ نماز قصر کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ، اگر کسی شخص کو سفر میں نماز چھوٹ جائے اور اس کا وقت گزر جائے، تو وہ اسے ہدف میں قصر کرکے واپس کرے گا، اور جو شخص گھریلو حالت میں نماز چھوٹ جانے پر اسے سفر میں قضا کرے گا تو اسے مکمل پڑھنا ہو گا۔

چوتھا: سفر کا مباح ہونا:

اس موضوع پر بھی علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے:

جماعت کا مذہب (مالکیہ، شافعیہ، حنبلیہ):
یہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ سفر کا مباح ہونا قصر نماز کے لیے ضروری ہے۔ ان کے مطابق، سفر کی رعایت تبھی ملے گی جب سفر جائز (مباح) ہو، جیسے کہ حج، اہل و عیال سے ملاقات یا دوسرے جائز سفر جنہیں اصل میں مستحب یا مباح سمجھا جاتا ہے۔
استدلال: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر (کم) کر لو } [مائدة: 3]
یہاں اللہ تعالیٰ نے معذرت کو اضطرار اور گناہ سے بچنے کی شرط پر مشروط کیا ہے، یعنی جس شخص کا سفر گناہ یا معصیت کی نیت سے ہو، اسے شریعت کی رخصت نہیں ملے گی۔ سفر معصیت میں فرض عبادات میں تخفیف کرنا، گناہ کرنے والے کو مدد دینا ہو گا، جو کہ شریعت کے مقاصد کے خلاف ہے۔

مذہب حنفیہ اور بعض مالکیہ و ظاہرہ (ابن تیمیہ اور الشوکانی کا انتخاب):
یہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ سفر کا مباح ہونا ضروری نہیں ہے تاکہ قصر نماز کی اجازت دی جائے۔ ان کے مطابق، اگر کسی نے سفر کیا تو وہ قصر نماز کے مستحق ہوگا چاہے وہ سفر معصیت کی نیت سے ہو یا نہ۔
استدلال:
اللہ کا فرمان ہے:
{ اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز میں قصر (کم) کر لو } [نساء: 101]
یہ عمومی حکم ہے جس میں سفر کے لیے کسی خاص مقصد کا ذکر نہیں کیا گیا۔
مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے: «اللہ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نماز فرض کی، حضر میں چار رکعتیں، سفر میں دو رکعتیں، اور خوف میں ایک رکعت»۔ یہ تمام قسم کے سفر کے لیے ہے۔
اسی طرح، ہم جمعہ کی نماز میں بھی طاعت و معصیت کے فرق کے بغیر دو رکعتیں ادا کرتے ہیں، اور کسی گناہگار سے یہ نہیں کہا جاتا کہ تمہیں فرض نماز چار رکعت ادا کرنی ہے۔

اس کے نتیجے میں:

جو شخص حج، اہل و عیال کی ملاقات یا کسی مستحب مقصد کے لیے سفر کرتا ہے، وہ تمام فقہی مذاہب کے مطابق قصر کر سکتا ہے۔

جو شخص قمار بازی (جیسے لاس ویگاس میں) یا اس جیسے گناہ کے سفر پر نکلے، اس پر احناف اور ان کے پیروکاروں کا ایک الگ موقف ہے، جبکہ دیگر فقہاء کے مطابق قصر کی اجازت نہیں ہوگی۔

جو شخص تفریحی مقاصد جیسے کھیلوں کے ایونٹس (مثلاً فٹ بال، اولمپک گیمز) کے لیے سفر کرتا ہے، ان کے بارے میں بھی اختلاف ہے: اگر کھیل جائز ہیں جیسے فٹ بال، تو تمام فقہاء کے نزدیک قصر جائز ہے، لیکن اگر کھیل میں شریعت کی خلاف ورزی ہو جیسے خواتین کی برہنہ تیراکی یا مارشل آرٹس میں چہرے پر حملے جیسے کھیل، تو اس میں اختلاف موجود ہے۔

اس کے علاوہ:
کچھ مجتہد علماء، جیسے داؤد بن علی، طاوس اور ابراہیم تیمی نے یہ شرط لگائی کہ سفر صرف طاعت کے مقصد کے لیے ہو جیسے حج یا جہاد، اور ان کے نزدیک عموماً سفر بھی قصر نماز کے لیے جائز نہیں ہوتا۔