View Categories

سوال202: کیا شعبان کے دوسرے نصف میں روزہ رکھنے میں کوئی کراہت ہے؟

جواب:
شعبان کے دوسرے نصف میں نفل روزہ رکھنے کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، اور اس اختلاف کی وجہ بعض روایات کا تضاد ہے:

ان میں سے ایک روایت ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے آئی ہے، جس میں نبی نے فرمایا: «جب شعبان کا نصف گزر جائے تو روزہ نہ رکھو»۔
یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بخاری میں آئی ہے، جس میں کہا گیا: «رسول اللہ
اتنا روزہ رکھتے کہ ہم کہتے کہ وہ افطار نہیں کرتے، اور اتنا افطار کرتے کہ ہم کہتے کہ وہ روزہ نہیں رکھتے، میں نے رسول اللہ کو رمضان کے علاوہ پورا مہینہ روزہ رکھتے نہیں دیکھا، اور شعبان میں آپ سے زیادہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا»۔
اس کے علاوہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت ہے، جو بخاری اور مسلم میں ہے، جس میں نبی
نے فرمایا: «رمضان سے پہلے ایک یا دو دن کے لیے روزہ نہ رکھو، سوائے اس شخص کے جو معمول کے طور پر روزہ رکھتا ہو، تو وہ اسے رکھے»۔
اگر شعبان کے دوسرے نصف میں روزہ رکھنے سے منع کیا جاتا، تو پھر یہاں ایک یا دو دن کے روزہ رکھنے پر کیوں کوئی ممانعت نہ کی گئی؟ یہ اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ شعبان کے دوسرے نصف میں روزہ رکھنا جائز ہے، جب تک کہ روزہ کسی عادت یا کسی معمول کا حصہ ہو۔

در حقیقت، روایت: «جب شعبان کا نصف گزر جائے تو روزہ نہ رکھو»، اس کی صحت پر اختلاف ہے۔ ترمذی، ابن حبان، حاکم، طحاوی، ابن عبد البر، اور محدثین میں سے شیخ شاكر نے اسے صحیح کہا، جبکہ دارقطنی، ابو زرعہ، اور امام احمد بن حنبل نے اس کو ضعیف کہا۔

اس پر فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ ان روایات کے حوالے سے کیا حکم لگایا جائے:

شعبان کے پورے مہینے میں، چاہے وہ شعبان کا پہلا نصف ہو یا دوسرا نصف، روزہ رکھنا جائز ہے، بشرطیکہ نفل روزہ کی نیت ہو۔ یہ رائے جمہور علماء کی ہے، جن میں حنفیت، مالکیہ اور حنبلیہ شامل ہیں۔

شعبان کے دوسرے نصف میں "یوم الشک” (رمضان کے آغاز سے پہلے کے دن) اور اس کے قبل کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں، سوائے اس کے کہ ان دنوں میں روزہ کسی معمول یا عادت کی بناء پر ہو، جیسے پیر اور جمعرات کا روزہ۔ یہ رائے شافعیوں کے نزدیک سب سے مضبوط ہے۔شعبان کے دوسرے نصف میں صرف یوم الشک میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے، باقی دنوں میں روزہ رکھنا جائز ہے۔ یہ رائے اہل حدیث کے بہت سے علماء کی ہے۔