جواب:
زکات کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے کیونکہ وہ اس بات پر مختلف ہیں کہ شیئرز کو کس طرح دیکھا جائے: کیا یہ تجارت کی اشیاء میں شامل ہیں جن پر زکات دی جاتی ہے، یا یہ کرایے کی جائیداد ہیں جن پر زکات کا حساب مختلف ہوگا، یا یہ مال ذخیرہ کیا گیا ہے جس کا مقصد قیمت میں اضافے کا انتظار کرنا ہے۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ ہم شیئرز کو دو اقسام میں تقسیم کریں گے:
پہلى قسم: مختصر مدت (Short-term) شیئرز
یہ وہ شیئرز ہیں جو مالک طویل المدتی سرمایہ کاری کے بجائے قلیل المدتی فائدے کے لیے خریدتا ہے۔ اس کا مقصد تیز تر قیمتوں میں اضافے سے فائدہ اٹھانا ہے۔ مالک انہیں چند گھنٹوں یا دنوں میں بیچ سکتا ہے۔ اس قسم کے شیئرز میں مالک کا مقصد شیئر کی قیمت میں اضافے پر نظر رکھنا ہوتا ہے، نہ کہ اس سے حاصل ہونے والے منافع پر۔ اس پر زکات کی مقدار کا حساب اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس شیئر کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق اس پر زکات لی جائے۔
زکات کا حساب اس قسم کے شیئرز کے لئے:
پہلا قسم: قلیل المدتی شیئرز (Short-term)
یہ شیئرز تجارتی مال کی زکات کے طور پر زکوة دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ شیئر کی مارکیٹ قیمت کو اور اس سے حاصل شدہ منافع کو زکات میں شامل کریں گے۔ اگر آپ نے شیئرز کو سال کے آخر میں نہیں بیچا، تو آپ ان کی موجودہ مارکیٹ قیمت کو اس وقت کے وقت کی قیمت کے مطابق حساب میں لیں گے اور انہیں اپنے دیگر مال میں شامل کریں گے، پھر اس پر ربع العشر (2.5٪) زکات دیں گے۔
مثال:
اگر آپ کے پاس دس ہزار ڈالر مالیت کے شیئرز ہیں اور آپ کے پاس دس ہزار ڈالر نقد رقم بھی ہے تو آپ کل بیس ہزار ڈالر پر ربع العشر زکات دیں گے یعنی 500 ڈالر۔
دوسرا قسم: طویل المدتی شیئرز (Long-term)
یہ وہ شیئرز ہیں جنہیں خریدا جاتا ہے تاکہ مستقل آمدنی حاصل کی جا سکے۔ یہ شیئرز عموماً بڑی کمپنیوں میں ہوتے ہیں جن کا مستقبل میں ترقی کا امکان ہوتا ہے، جیسے ایئرلائنز، ادویات کی کمپنیاں، ہوٹل، نقل و حمل کی کمپنیاں، وغیرہ۔ ان شیئرز کا مقصد مستقل یا تقریباً مستقل منافع حاصل کرنا ہے، جو کمپنی کی آمدنی کے کچھ حصے کے طور پر شیئر ہولڈرز میں تقسیم ہوتا ہے (یہ منافع ماہانہ، سہ ماہی، یا سالانہ ہوسکتا ہے)۔
زکات کا حساب:
اس قسم میں شیئرز کی قیمت سال بھر میں تبدیل ہو سکتی ہے، اس لئے آپ کو سال کے آخر میں ان کی موجودہ قیمت کا حساب لگانا ہوگا، اور ساتھ ہی جو منافع آپ کو کمپنی سے ملا ہے اس پر بھی زکات ادا کرنی ہوگی۔ منافع پر زکات اس کی اصل قیمت سے حساب کی جاتی ہے۔
جواب:
زکات کے اس قسم پر محدثین نے مختلف آراء پیش کی ہیں:
پہلى رائے:
اس میں شیئر اور اس کے منافع پر ربع العشر (2.5٪) زکات دی جاتی ہے، جیسے پہلے قسم میں دیا جاتا ہے۔
دوسرى رائے:
اس رائے کے مطابق، صرف منافع پر زکات دی جاتی ہے اور اصل شیئر (اس کی قیمت) پر زکات نہیں دی جاتی کیونکہ یہ اقتصادی وسائل (صنعتی اوزار) کے طور پر شمار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، جیسے کوئی شخص ہنر کا کاروبار شروع کرتا ہے اور مشینیں، دھاگے وغیرہ خریدتا ہے، تو یہ چیزیں زکات کے قابل نہیں ہوتیں، لیکن اس سے حاصل ہونے والا منافع اگر بنیادی ضروریات میں خرچ نہ ہو تو اس پر ربع العشر زکات دی جاتی ہے۔
تیسرى رائے:
اس رائے کے مطابق، صرف منافع پر زکات دی جاتی ہے لیکن اس پر زکات کا حساب زرعی زکات کی طرح کیا جاتا ہے: اگر اخراجات نکالے جائیں تو اس پر عشر (10٪) زکات دی جائے گی، اور اگر اخراجات نہ نکالے جائیں تو نصف عشر (5٪) زکات دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ موقوف سمجھا جاتا ہے، جس کا مقصد خود نفع حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والے منافع کو استعمال کرنا ہے۔
ہمارا منتخب رائے:
ہم اس رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ زکات صرف منافع پر دی جائے، کیونکہ شیئر کی قیمت پر زکات دینا مشکل ہو سکتا ہے، اور اس میں عبات اور سرمایہ کے نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔ ہمارے دین میں کسی بھی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسے کہ قرآن میں ذکر ہے: "اللہ تعالی تمہارے لیے کوئی تکلیف نہیں چاہتا” (حج: 78)۔ اس رائے میں ہم زرعی مال کے مالک کو ایک خاص حیثیت دیتے ہیں، جو کہ زمین یا صنعت کے مالک سے مختلف ہے۔
اسی طرح جو رائے یہ کہتی ہے کہ صرف منافع پر زکات دی جائے اور اصل رقم پر زکات نہ دی جائے، اس میں ایک تجاوز ہے کیونکہ یہ مالدار کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے مال کو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرے، چاہے وہ ضروریات کی سطح پر نہ ہو، اور اس مال سے غریب کو کچھ نہ ملے۔ مثال کے طور پر، جو شخص ایک فیکٹری یا ہوٹل کا مالک ہے اور اس نے لاکھوں روپے کمائے اور وہ ان پیسوں کو اپنی ذاتی ضروریات جیسے ذاتی گاڑیاں یا رہائش خریدنے میں خرچ کرتا ہے، تو اس رائے کے مطابق اس کا منافع زکات کے قابل نہیں ہوگا کیونکہ وہ پیسہ اس کی ذاتی ضروریات میں خرچ ہو گیا۔ یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے کہ ہم ان لوگوں پر زکات دیتے ہیں جو اپنی رقم کو بچا کر رکھتے ہیں اور آنے والے وقت کے لیے ذخیرہ کرتے ہیں، لیکن ہم ان لوگوں کو زکات نہیں دیتے جو لاکھوں کما چکے ہیں اور اپنی ذاتی لذتوں میں خرچ کر چکے ہیں۔
تیسری رائے میں انصاف ہے، کیونکہ اس میں مالک کو منافع کے مطابق زکات دینے کی بات کی گئی ہے۔ جو شخص ہر ماہ منافع کما رہا ہے، وہ اپنے منافع کی زکات ہر ماہ نکالے گا، اور جو شخص تین ماہ میں منافع کماتا ہے، وہ ہر تین ماہ کے بعد زکات دے گا۔ اگر وہ اس کو سال کے آخر تک ملتوی کرتا ہے تو اس پر قرض کی طرح زکات فرض ہو گی اور اس کو اس کے منافع پر زکات ادا کرنی ہوگی، چاہے اس نے ان پیسوں کو ذاتی طور پر خرچ کر لیا ہو۔ یہ قرض اس کے ذمے ہوگا، جیسے کہ زراعت کی زکات۔
آخر میں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ اگر اس قسم کے شیئر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، تو اس کا اثر زکات کے حساب پر نہیں پڑے گا، جیسے زمین کی قیمت یا کاروباری جائیدادوں کی قیمت میں اضافے کا زکات پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔