View Categories

سوال259): کیا باغات کی بیماریوں کے علاج کے لیے بیئر خریدنا جائز ہے؟

جواب):

 یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب ایک دوسرے بحث سے متعلق ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا حرام اشیاء سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، اگر ان کا استعمال اس مقصد کے لیے نہ ہو جس کے لیے ان کا حرام ہونا آیا ہو؟

اس حوالے سے ہم کہتے ہیں، اور اللہ سے مدد مانگتے ہیں:

پہلا:

 اشیاء کو عام طور پر تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

حرام اشیاء جن کا ہر پہلو حرام ہو، جیسے خنزیر، اور ان سے فائدہ اٹھانا صرف دو صورتوں میں جائز ہے:

ضرورت کی حالت (جب انسان کی جان کو بچانے کے لیے استعمال کرنا ضروری ہو)

استحالہ مکمل (جب وہ کسی ایسی حالت میں تبدیل ہو جائے کہ اس کی اصل حرام خصوصیات ختم ہو جائیں)

حلال اشیاء جن کا ہر پہلو حلال ہو، جیسے پھل، سبزیاں، اور مچھلی، اور ان سے ہر حالت میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

حرام اشیاء جو کہ کچھ حالات میں حلال ہو سکتی ہیں، جیسے مردار۔ مردار کا گوشت حرام ہے لیکن اس کی کھال کو ٹانگ کر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور اس کے سینگ، ہڈیاں اور ناخن کا استعمال بھی بعض فقہاء کے مطابق جائز ہے، جیسے امام حنیفی اور بعض حنبلیوں کی ایک رائے کے مطابق، اور یہ ابن تیمیہ کا بھی انتخاب تھا۔

دوسرا:

 حرام اشیاء کی حرمت کی وجہ مختلف ہوتی ہے، اور عام طور پر ان وجوہات کا تعلق درج ذیل بنیادی اسباب سے ہوتا ہے:

نجاست:

 جیسے خنزیر (جو کہ اکثر علماء کے نزدیک نجس ہے)، مردار، اور شراب (جو کہ بعض کے نزدیک نجس ہے)

غلیظ اور گھنونی اشیاء: جیسے کیڑے اور بلغم

ضرر کا سبب: جیسے زہر

مقاصدِ شرع کے خلاف: جیسے عقل کے تحفظ کے لیے مسکر کا استعمال، اور جان کا نقصان جیسے خودکشی

اس طرح، اگر بیئر کسی قسم کی حرام چیز سے تیار کی گئی ہو جیسے شراب یا خنزیر، تو اسے استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا، تاہم اس کی دیگر استعمالات پر اس کی جائزیت کا انحصار ان اشیاء کی خصوصیات اور اس کے استعمال کی نوعیت پر ہوگا۔

وہ اشیاء جو عبادت کی وجہ سے حرام ہیں جیسے مردوں کے لیے سونے کا حرام ہونا، اور اسی طرح ریشم بھی، اور اسی طرح حرام حالت میں ذبح کرنا کیونکہ وہ تذکیہ کے اہل نہیں ہیں، جیسے نص سے ثابت ہے۔

وہ اشیاء جو اصل خلقت کے اعتبار سے مکرم ہیں جیسے انسانوں کا گوشت۔

تیسرا: حرام مشروبات کے بارے میں، ہر وہ چیز جو یقینی طور پر نقصان دہ ہو یا نشہ آور ہو، وہ حرام ہے۔
مسکر وہ ہے جس کا زیادہ مقدار انسان کے ہوش و حواس کو بگاڑ دے، اور یہ حرام ہے، جیسے رسول اللہ
کا فرمان ہے: «ہر مسکر حرام ہے»، اور «جو چیز زیادہ مقدار میں نشہ آور ہو، اس کی کم مقدار بھی حرام ہے»۔
مسکر بنانے میں مختلف اجزاء استعمال ہوتے ہیں اور ان میں کحول کی مقدار مختلف ہوتی ہے، بعض میں کحول کی مقدار 60 فیصد تک ہوتی ہے، اور سب سے کم مقدار بیئر (جسے جعت بھی کہا جاتا ہے) میں ہوتی ہے، جو تقریبا 3 فیصد کحول پر مشتمل ہوتی ہے، تاہم یہ بھی حرام ہے کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ
نے جعت (بیئر) کے بارے میں فرمایا: «اسے ترک کر دو»۔

چوتھا: ہم نے کہا کہ حرام اشیاء ہر اعتبار سے حرام ہو سکتی ہیں، جیسے خنزیر، اور کچھ اشیاء کی حرمت صرف مخصوص استعمال تک محدود ہے، جیسے مردار کا گوشت، اور شراب کا پانی، اس طرح کے معاملات میں فقہاء کے درمیان اختلاف رہا ہے کہ آیا ان اشیاء کا استعمال جائز ہے یا نہیں۔
ہم اس میں چند مثالیں دیں گے:

چمڑا (مردار کا): جمہور اہلِ علم میں سے احناف، بعض مالکیہ اور شافعیہ اور ایک رائے حنابلہ کی یہ ہے کہ حلال جانور کے مردار کا چمڑا دباغت کے بعد استعمال کرنا جائز ہے۔
جبکہ مالکیہ اور حنابلہ کی دوسری رائے کے مطابق یہ جائز نہیں۔

مردار کا چربی:

 جمہور اہلِ علم نے مردار کی چربی کو کسی صورت میں استعمال کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے، جبکہ شافعیہ اور حنابلہ میں ایک رائے ہے کہ یہ جائز ہو سکتا ہے۔

مردار کا اون اور ہڈی:

 احناف، حنابلہ کی ایک رائے اور ابن عبدالحکم (مالکیہ) کے

 مطابق مردار کے اون اور ہڈی کا استعمال جائز ہے کیونکہ ان میں کوئی زندگی نہیں ہوتی۔
شافعیہ نے اس کا استعمال کلی طور پر ممنوع قرار دیا ہے، اور جمہور نے مردار کے اعضاء میں زندگی رکھنے والے حصوں اور غیر جاندار حصوں میں فرق کیا ہے۔

مردار کا دودھ: امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ابن تیمیہ نے مردار کا دودھ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، جبکہ جمہور علماء نے اسے مردار کے ساتھ ہی حرام سمجھا ہے۔ اسی طرح مردار کی منافعہ (دودھ دینے والی غدود) کو بھی حرام قرار دیا ہے۔

درندوں کی کھال: احناف، شافعیہ، حنابلہ کی ایک رائے اور بعض مالکیہ جیسے سحنون کے مطابق درندوں کی کھال کو دباغت کے بعد استعمال کرنا جائز ہے۔
جبکہ مالکیہ اور حنابلہ کی دوسری رائے کے مطابق درندوں کی کھال استعمال کرنا حرام ہے کیونکہ اصل حرام جانور ہونے کی وجہ سے۔

پانچواں:
مذکورہ بالا نکات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض علماء کے مطابق، اگر حرام چیز کا استعمال اس مقصد کے لیے نہ ہو جس کے لیے وہ حرام کی گئی ہے، تو اس کا استعمال جائز ہو سکتا ہے۔
اس کی مثالیں فقہاء نے دی ہیں جیسے کہ (سرقین) یعنی جانوروں کی گوبر کو زمین کی کھاد بنانے کے لیے استعمال کرنا، یہ احناف، مالکیہ اور شافعیہ کے مابین جائز سمجھا جاتا ہے، حالانکہ سرقین کو نجاست سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح حرام بیئر کو کیڑے مارنے کے لیے استعمال کرنا جائز ہے کیونکہ اس کا حرام ہونا کھانے کے لیے ہے، استعمال کے لیے نہیں۔ اسی طرح حرام چربی کا استعمال روشنی کے لیے جائز سمجھا جاتا ہے۔