View Categories

سوال268: میرے قریب کا رشتہ دار اپنی زمین کے پیسوں کو اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے، اور اس کے لیے وہ اپنی زندگی میں اس رقم کا کچھ حصہ اپنے ذاتی استعمال کے لیے رکھنا چاہتا ہے۔ باقی رقم کو وہ کیسے تقسیم کرے گا؟ کیا اسے لڑکے کو لڑکی کے دو حصوں کے برابر دینا ضروری ہے؟ یا وہ جو چاہے طریقہ اختیار کر سکتا ہے؟ براہ کرم رہنمائی فراہم کریں۔

جواب:

 اگر یہ تقسیم مرنے کے بعد ہو تو اسے وراثت یا وصیت کہا جائے گا، اور اس کے لیے شرعی حصے مخصوص ہیں جو کہ قرآن و سنت سے متعین ہیں، اور ان میں اجتہاد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن زندگی میں جائیداد کی تقسیم مختلف ہے۔ اس صورت میں، وہ شخص اپنی جائیداد کو کسی بھی طریقہ سے تقسیم کر سکتا ہے، مثلاً بیٹے اور بیٹی میں برابر تقسیم، یا کسی ایک کو زیادہ دینا، وغیرہ۔ اس میں اسے کوئی مخصوص شرعی تقسیم کرنے کا پابند نہیں کیا گیا ہے۔ ہبہ (تحفہ) یا تبرع (صدقات) کے باب میں شرع نے آزادگی رکھی ہے، اور اس میں وہ شخص اپنی مرضی سے تقسیم کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی امتیاز کی بنیاد پر ایسا کرے تو اس کے پاس اس کا جواز بھی ہونا چاہیے۔ شرعی طور پر ہبہ یا تبرعات میں کسی خاص تناسب کی پابندی نہیں ہے۔ لیکن اسے اس طرح تقسیم کرنا چاہیے کہ اس کی نیت صاف ہو اور کسی کو نقصان نہ پہنچے۔