View Categories

سوال270: اگر بیٹی اپنے والد سے پہلے مر جائے تو کیا اس کے بچوں کو اپنے دادا (والد) کی جائیداد میں حصہ ملے گا؟

جواب:

وراثت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وارث کی زندگی میں ہی وہ کسی جائیداد میں حصہ دار بن سکتا ہے۔ اس لیے اگر وارث (بیٹی) اپنے والد سے پہلے مر جائے، تو وہ اس کے بعد اپنے والد کی وراثت میں حصہ نہیں لے سکتی، کیونکہ وراثت صرف زندہ وارث کو ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی نے یہ شرط رکھی کہ بچے کی زندگی میں ہی وہ وراثت کا حق دار ہو گا، ورنہ اسے وراثت کا حق نہیں ملے گا۔

اکثر فقہاء کا یہ مؤقف ہے کہ اگر کسی وارث (بیٹے یا بیٹی) کی وفات مورث (والد) کی زندگی میں ہو جائے، تو اس کا حصہ دیگر زندہ وارثوں میں تقسیم ہو جائے گا، چاہے اس کے بچے ہوں یا نہ ہوں۔

کچھ فقہاء (جیسے امام احمد بن حنبل اور دیگر) کا کہنا ہے کہ اگر وارث کا انتقال مورث کی زندگی میں ہو جائے، تو اس کے بچوں کو اس کے حصے سے کوئی حصہ مل سکتا ہے، لیکن یہ وصیت کے طور پر ہوگا، نہ کہ وراثت کی بنیاد پر۔

جدید قانونی نظام میں بعض اسلامی ممالک میں "واجبی وصیت” کی تعبیر استعمال کی گئی ہے، جس کے تحت اگر کوئی وارث (بیٹی) مر جائے، تو اس کے بچوں کو اس کے حصے سے وصیت کے ذریعے حصہ مل سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا تناسب ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو۔ اگر یہ حد بڑھ جائے تو اس کا فیصلہ باقی ورثاء کی اجازت پر منحصر ہو گا۔

نتیجہ:

وراثت کا حق صرف اس صورت میں ملے گا جب وارث زندہ ہو، اور اگر وہ مر جائے تو اس کے بعد اس کے بچے فقط وصیت کے ذریعے اس کا حصہ حاصل کر سکتے ہیں، لیکن یہ ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔

قانون میں اس کے لیے جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ یہ ہیں:

وارث نہ ہونا: جو شخص وصیت کا مستحق ہے وہ صاحب ترکہ کا وارث نہ ہو، اور ان کے ساتھ کوئی ایسا وارث نہ ہو جو ان سے پہلے حق رکھتا ہو، جیسے کہ ان کے چچا۔

احفاد کی وصیت:

 اگر دادا یا دادی نے اپنی زندگی میں اپنے پوتے پوتیوں کو بغیر کسی عوض کے وصیت کی ہو، تو وہ وصیت الواجبة کا حق نہیں رکھتے۔ اگر انہوں نے ان کو تیسری حصے سے کم وصیت کی ہو، تو ان کے لیے وصیت واجب ہوگی تاکہ ان کا حصہ مکمل ہو، یا اگر ان کا حصہ زیادہ ہو تو تیسرا حصہ دیا جائے گا۔

قاتل کا وارث نہ ہونا:

 جس شخص کو وصیت الواجبة مل رہی ہو، وہ مورث کا قاتل نہ ہو، اور نہ ہی وہ شخص جس کا باپ یا ماں کسی وجہ سے وراثت سے محروم ہو، جیسے کہ قتل یا مذہب کے اختلاف کی بنا پر۔

وصیت الواجبة کا قول

: یہ فتویٰ ہم اس لیے دیتے ہیں تاکہ متوفی کے بچوں کا حق ضائع نہ ہو، اور وہ چچا وغیرہ کے درمیان نہ پھنس جائیں۔ جیسے دادا پوتے کا وارث بن سکتا ہے، ویسے پوتا بھی دادا کا وارث بن سکتا ہے۔لہذا، اس بیٹی کے بچوں کو ان کی والدہ کے حصے کا حق ہے جو وہ زندگی میں وراثت کی صورت میں حاصل کرتے ہیں، اور یہ حصہ تیسری ترکہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔