View Categories

سوال:67 میری بیوی کے ذمہ رمضان کے کچھ دنوں کا قضا ہے، کیونکہ وہ ایک سال حاملہ رہی اور پھر دو سال تک دودھ پلانے کی وجہ سے، افسوس کہ وہ رضاعة اور حمل کی وجہ سے ان دنوں کا قضا نہیں کر سکی۔ یہ ہماری کم علمی کی وجہ سے تھا، کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ حمل اور رضاعة کی وجہ سے صدقہ دینا کافی ہے، نہ کہ قضا کرنا۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ قضا کرنا ضروری ہے۔ تو ان پر ان پرانے دنوں کا قضا کرنے کا کیا واجب ہے؟ کیا انہیں رمضان آنے سے پہلے قضا کرنا چاہیے، یا قضا کے ساتھ کفارہ بھی دینا ہوگا، یا صرف کفارہ کافی ہے؟ اگر قضا کرنا ضروری ہے تو کیا یہ رمضان سے پہلے ہونا چاہیے، یا کیا ہم اسے بعد میں مؤخر کر سکتے ہیں کیونکہ دن زیادہ ہیں؟

جواب:

جس شخص نے کسی عذر کی بنا پر افطار کیا ہو اور عذر زائل ہونے کے بعد قضا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، اس کے لیے یہ اصل ہے کہ وہ اپنے ذمہ روزے قضا کرے۔ اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا صرف قضا واجب ہے یا قضا اور کفارہ دونوں۔

لیکن میری رائے ہے کہ یہ دو چیزوں پر منحصر ہے

قضا میں مشقت

قضا کرنے کے لیے مطلوبہ دنوں کی تعداد

اگر دنوں کی تعداد کم اور گنی چنی ہے تو واجب یہ ہے کہ ان کا قضا کیا جائے، جیسا کہ عمومی رائے ہے۔ لیکن اگر دنوں کی تعداد زیادہ ہو اور اس میں مشقت یا عنت ہو، جیسے کہ اگر کئی رمضان کے دن فوت ہو گئے ہوں، تو یہاں آسانی کرنی چاہیے۔ اس صورت میں ہم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کریں گے، جو کہ کفارہ دینے کا ہے، بغیر قضا کے، خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ کفارہ میں فقراء اور مساکین کے لیے بھی فائدہ ہے۔

یہ اس صورت میں ہے جب افطار مکلف کی غفلت کی وجہ سے نہ ہوا ہو۔ لیکن اگر افطار اس کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہو تو پھر اس پر واجب اور سزا دونوں آئیں گی، اور اس کے لیے قضا بھی ضروری ہوگی۔لہذا، آپ کی بہن پر لازم ہے کہ وہ ان مہینوں کے لیے جن میں اس نے حمل اور رضاعة کی وجہ سے افطار کیا، ہر دن کے بدلے دو کھانے فراہم کرے، اگر احناف کی رائے لی جائے، یا ایک کھانا فراہم کرے اگر عمومی رائے لی جائے۔