جواب:
اصل یہ ہے کہ زکوة مستحق کو دی جائے، اور انہیں مال یا چیز کی ملکیت دی جائے تاکہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کر سکیں، کیونکہ وہ اپنی حاجت سے زیادہ واقف ہیں۔ لیکن اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ مستحق زکوة کے پیسوں کو حرام چیزوں میں خرچ کر سکتا ہے، یا ان ضروریات میں نہیں لگائے گا جن میں پیسہ صرف کرنا چاہیے، جیسے اپنے بچوں اور بیوی کی کفالت، یا کھانے پینے اور دواؤں کی ضروریات، تو اس صورت میں سادات احناف کے مکتب فکر کے مطابق جائز ہے کہ ہم انہیں زکوة کی رقم سے چیزیں خرید کر دیں، جیسے ان کے گھر کے لیے کھانا، رہائش کی ضروریات، یا دوائی۔تاہم، یہ جائز نہیں ہے کہ ہم زکوة کی رقم سے کوئی منفعت حاصل کریں، جیسے ڈاکٹر کو مستحق سے اس کی خدمات کی اجرت دینا، یا مؤجر کو زکوة کے بدلے رہائش کی کرایہ دینا، کیونکہ اس صورت میں مزکی (زکوة دینے والے) کو منفعت حاصل ہو گی، جو کہ جائز نہیں ہے۔