View Categories

سوال13: ہالووین کی مناسبت سے مدارس میں بچوں سے لباس اور جشن کے حوالے سے سوال

عالمی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق "عشیتہ قدیسین” (Hallows’ Even) سے ماخوذ ہے، جو مغربی مسیحیت میں ایک مذہبی رسم ہے جس میں مرنے والوں، بشمول قدیسان اور شہداء، کو یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مذہبی تہوار ہے جو خاص طور پر مسیحیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ہالووین دراصل ایک قدیم غیر مسیحی تہوار ہے، جیسا کہ "بریتینیکا” انسائیکلوپیڈیا میں ذکر ہے کہ یہ تہوار قدیم کلتک (Celtic) قوموں کے ذریعے آئرلینڈ اور برطانیہ میں منایا جاتا تھا، جو موسم سرما کی ابتدا اور سیاہ دنوں کے آغاز کو ظاہر کرتا تھا۔

حکم
اسلام میں غیر مسلم تہواروں کی تقلید سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ یہ عبادات یا رسوم کسی خاص دین یا عقیدے سے متعلق ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کو ایسے تہواروں میں حصہ لینے سے بچنا چاہیے جن میں غیر اسلامی عقائد کی ترویج ہوتی ہو، جیسا کہ ہالووین کا تعلق موت کے پیغمبروں اور غیر مسلم رسوم سے ہے۔

تاریخ ہالووین اور اس کا مذہبی پس منظر
یہ کہا گیا ہے کہ قدیم کلتک قوموں کا عقیدہ تھا کہ زندگی کی دنیا اور مرنے والوں کی دنیا کے درمیان ایک پردہ ہوتا ہے، جو "سہوین” (Samhain) کے عشاء میں ختم یا کم ہو جاتا ہے، جو 31 اکتوبر کو آتا تھا۔ اس دن کے دوران وہ مانتے تھے کہ مرنے والے افراد کی روحیں اس پردے سے گزر کر واپس اپنے اہل خانہ سے ملنے آتی ہیں۔ اس رات کو وہ اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ دیتے تھے اور کھانے کی میز پر خالی کرسیاں رکھتے تھے تاکہ یہ روحیں آرام سے آ کر بیٹھ سکیں۔

جب کہ روحوں کے بارے میں یہ عقیدہ تھا کہ وہ اچھے یا برے ہو سکتی ہیں، اس لئے اس رات برے ارواح کو دور کرنے کے لئے پہاڑوں کی چوٹیوں پر آگ روشن کی جاتی تھی اور اس کی وجہ سے وہ لوگ نقاب بھی پہنتے تھے تاکہ برے ارواح انہیں پہچان نہ سکیں۔ اس کے علاوہ یہ رات پیشگوئی کرنے والے پجاریوں سے ملاقات کے لئے سب سے بہترین وقت سمجھی جاتی تھی تاکہ لوگوں کو ان کی صحت، شادی اور موت کے بارے میں معلومات مل سکیں۔

دوسری جانب، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہالووین ایک مرکب تہوار ہے جو قدیم غیر مسلم رسوم اور مسیحی رسومات کا مجموعہ ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں پوپ بونفیس چہارم نے "تمام قدیسان کا دن” (All Saints Day) 13 مئی کو منایا تھا، اور ایک صدی بعد اسے نومبر کے پہلے دن پر منتقل کر دیا تاکہ ایک غیر مسیحی تہوار کی جگہ ایک مذہبی مسیحی جشن لے سکے۔ اس کے نتیجے میں، ایک تہوار تشکیل پایا جو تین دن تک جاری رہتا تھا:

پہلا دن، "تمام قدیسان کی رات” یا "ہالووین” (31 اکتوبر)

دوسرا دن، "تمام قدیسان کا دن” (1 نومبر)

تیسرا دن، "تمام ارواح کا دن” (2 نومبر)

اسی سے "عشیتہ ما قبل ہر مقدس” (All Hallows Eve) کا نام آیا، جو بعد میں "ہالووین” میں تبدیل ہو گیا۔

دینی نقطہ نظر سے مسلمانوں کے لئے ہالووین کا حکم
دوسرے مذاہب کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنا یا ان میں حصہ لینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، کیونکہ یہ تہوار ایک مذہبی عبادت کی نوعیت رکھتے ہیں اور ان کا کوئی جائز شرعی دلیل یا مصدر نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے لئے دین اسلام میں مخصوص ایام اور عبادات ہیں جیسے عید الفطر، عید قربانی، اور میلاد النبی
جو شریعت سے ثابت ہیں اور ان کی مناسبت سے مسلمان خوشی مناتے ہیں۔

لہذا مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں شامل ہونے سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ یہ دین کی عبادات اور رسوم کی جگہ پر ہیں جو صرف مخصوص شریعت کے تحت جائز ہیں۔

تشبہ غیر مسلموں کی عبادات سے
اسلام میں غیر مسلموں کی عبادات یا رسومات کو اپنانا یا ان میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس سے ہمارے دین کی خاصیت متاثر ہو سکتی ہے اور ہم غیر مسلموں کے طریقوں کی نقل کرتے ہیں۔ اس بارے میں رسول اللہ
نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ ہمیں غیر مسلموں سے موازنہ کرنا اور ان کے طریقوں کو اپنانا منع ہے۔ مثلاً، احمد بن حنبل نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں رسول اللہ نے انصار کو کہا:
"اے گروہِ انصار! اپنے لحے کو سرخ اور زرد کرو، اور اہل کتاب سے مخالفت کرو۔” جب صحابہ نے پوچھا کہ اہل کتاب کے لوگ تہبند (سرکے) نہیں پہنتے؟ تو رسول اللہ
نے فرمایا:
"تم تہبند پہنو اور ان سے مخالفت کرو۔” پھر صحابہ نے سوال کیا کہ اہل کتاب کے لوگ جوتے نہیں پہنتے؟ تو فرمایا:
"تم جوتے پہنو اور ان سے مخالفت کرو۔” اور جب صحابہ نے پوچھا کہ اہل کتاب اپنی داڑھیاں منڈتے ہیں اور اپنی مونچھیں بڑھاتے ہیں؟ تو فرمایا:
"تم اپنی مونچھیں منڈو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہل کتاب سے مخالفت کرو۔”

ہالووین کے موقع پر مسلمانوں کا ردعمل
چونکہ ہالووین غیر مسلموں کا مذہبی اور ثقافتی تہوار ہے، اس لیے مسلمان بچوں کو اس میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس میں شرکت سے نہ صرف غیر مسلموں کے طریقوں کی تقلید ہوتی ہے بلکہ یہ ایک طرح کی ان کی عبادات میں شریک ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے نہ تو مسلمانوں کو اس دن کے خاص لباس یا مٹھائیاں خریدنی چاہیے اور نہ ہی بچوں کو ہالووین کے موقع پر گھروں سے مٹھائیاں طلب کرنی چاہیے۔ البتہ اگر غیر مسلم پڑوسیوں سے تحفے یا مٹھائیاں دی جائیں، تو انہیں حسن سلوک اور تحفے کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے غیر مسلموں کے تہواروں میں دی جانے والی ہدایات کو قبول کیا۔

نصرانیت اور یہودیت کو "دین” کہنا
دین وہ عقیدہ یا طریقہ ہے جسے انسان اپنے آپ کو خدا یا اس کے معبودوں کے قریب کرنے کے لیے اختیار کرتا ہے، چاہے وہ اسلام ہو یا کوئی اور مذہب۔ دین ایک جامع اصطلاح ہے جس میں عقیدہ اور عبادات دونوں شامل ہیں۔ تاہم، شریعت ایک مخصوص اصطلاح ہے جو ان قوانین اور اصولوں کو بیان کرتی ہے جو انسان کی عبادت، خود کے ساتھ تعلق، اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلق کو درست کرتی ہے۔

آیت کی تفسیر: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے:
{ بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے”۔ } [آل عمران: 19]
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک سچا دین صرف اسلام ہے، جو انسانوں کو اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کی رضا کے راستے پر گامزن کرتا ہے۔

الدین اور شریعت کی تعریف اور فرق
الدین ایک وسیع اور جامع لفظ ہے جو ہر قوم، قومیت یا عہد میں پائے جانے والے عقائد یا نظامِ زندگی کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مواقع پر مختلف اقوام کے مذہبی عقائد کو دین کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، جیسے:

اللہ تعالی نے فرمایا:
{ اور ابراہیم نے اپنی اولاد کو اس کی وصیت کی تھی، اور یعقوب نے بھی (اپنی اولاد سے) کہا: ‘اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے دین کو منتخب کر لیا ہے، پس تمہیں نہ مرنا جب تک کہ تم مسلم نہ ہو } [بقرة: 132]
یہاں دین کے لفظ سے مراد وہ عقیدہ ہے جس کی اتباع کی ہدایت اللہ نے اپنے انبیاء کے ذریعے کی۔

اللہ تعالی نے فرمایا:
{اور یہودیوں نے کہا: ‘نصرانیوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے’، اور نصرانیوں نے کہا: ‘یہودیوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے’، حالانکہ وہ دونوں کتاب پڑھتے ہیں۔ } [نساء: 46]
یہاں دین کے لفظ سے مراد یہود اور نصاریٰ کے عقائد ہیں۔

اللہ تعالی نے فرمایا:
{ بیشک جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہیں، اور جو نصرانی ہیں، اور جو صابی ہیں
" } [يونس: 22]
یہاں بھی دین سے مراد مختلف گروہوں کے عقائد ہیں۔

اللہ تعالی نے فرمایا:
{فرعون نے کہا: ‘میں نے تمہارے لیے اپنے سوا کوئی خدا نہیں جانا’ } [غافر: 26]
یہاں بھی فرعون نے اپنے عقیدے کو دین کے طور پر بیان کیا۔

اللہ تعالی نے فرمایا:
{ تمہارے لئے تمہارا دین، اور میرے لئے میرا دین } [كافرون: 6]
یہاں کافرین کے عقائد کو دین کہا گیا ہے۔

الدین اور الشریعت
دین کسی بھی قوم کے اعتقادی نظام کو ظاہر کرتا ہے، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط۔ شریعت، دوسری طرف، ایک مخصوص دین کے لیے وہ ضابطہ کار اور قوانین ہیں جو اس دین کے پیروکاروں کی زندگیوں کو منظم کرتے ہیں۔ اس طرح، اسلام، یہودیت اور مسیحیت میں ہر ایک کی اپنی شریعت ہے، جیسے اللہ تعالی نے فرمایا:
{
اور ہم نے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راستہ مقرر کیا ہے۔” } [مائدة: 48]
اس سے مراد ہر دین کی اپنی مخصوص شریعت ہے۔

اسلام اور دوسرے ادیان
اللہ تعالی نے فرمایا:
{ بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ } [آل عمران: 19]
یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ کے نزدیک واحد دین اسلام ہے، اور اس کے بعد کسی بھی دوسرے دین کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس آیت کا مقصد دین کی درستگی کو ثابت کرنا ہے اور اس بات کو بیان کرنا ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو اللہ کے نزدیک صحیح ہے۔ اس آیت میں ذکر شدہ دین کے معنی ہیں صحیح عقیدہ، نہ کہ ہر طرح کے عقائد۔
خلاصہ:
دین ایک عام لفظ ہے جو کسی بھی اعتقاد یا عقیدہ کو ظاہر کرتا ہے، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط۔ شریعت اس دین کے قواعد و ضوابط کو بیان کرتی ہے جو ایک خاص دین کے پیروکاروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ اگرچہ دین لفظ کا استعمال ہر ملت میں ہوتا ہے، لیکن اسلام میں جب لفظ "دین” استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد اسلامی عقیدہ ہوتا ہے۔ اسی طرح، "شریعت” بھی ایک خاص دین کے ضوابط اور احکام کے لیے مخصوص ہے۔