View Categories

سوال12: سوال:میری ایک بھائی سے دار حدیث میں گفتگو ہوئی تھی کہ کیا یہ کہنا جائز ہے کہ انسان کے بنائے ہوئے کام جیسے عمارتیں وغیرہ خدا کی تخلیق ہیں؟ کیونکہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے جیسے کہ اللہ نے انسان کو وہ علم سکھایا جس کی مدد سے وہ یہ کام کر سکتا ہے، تو اس کا اصل دار و مدار اللہ کی طرف لوٹتا ہے۔ تو اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب:
اس موضوع پر مختلف کلامی مذاہب کی آراء میں اختلاف ہے، اور ان آراء کا خلاصہ درج ذیل ہے:

مذہب جہمہ اور جبر: جہمہ اور جبر کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کو کسی فعل پر استطاعت حاصل نہیں ہے، بلکہ انسان مجبور ہے جو کچھ بھی اللہ تعالی اس کے لیے پیدا کرتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی دیگر مخلوقات کو پیدا کرتا ہے۔ ان کے مطابق، انسان کا فعل محض مجازاً اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، جیسے یہ کہا جائے کہ "پانی بہا”، "سورج نکلا” یا "آسمان میں تبدیلی آئی”۔ اس بات کے لیے وہ کچھ آیات سے استدلال کرتے ہیں جیسے:
{ تو چکھو (عذاب) بدلے میں اس کے جو تم نے اپنے اس دن کی ملاقات کو بھلا دیا تھا، بے شک ہم نے تمہیں بھلا دیا ہے۔” } [صافات: 96] اور { اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے} [زمر: 62]۔

مذہب معتزلہ: معتزلہ کے مطابق اللہ کی اور انسان کے افعال میں فرق ہے۔ اللہ کے افعال جبر کے تحت ہیں، جیسے سورج کا نکلنا، موت و حیات، وغیرہ، جبکہ انسان کے افعال اختیاری ہوتے ہیں، یعنی انسان اپنے فعل کو اپنے اختیار سے کرتا ہے اور اس پر اس کا اختیار ہوتا ہے۔ اس بات کے لیے وہ آیات سے استدلال کرتے ہیں جیسے:
{ اور جو شخص اچھائی لے کر آئے گا، اس کے لیے اس سے بہتر (انعام) ہوگا، اور جو شخص برائی لے کر آئے گا، اس کا بدلہ صرف اسی قدر برائی ہوگا۔ } [نجم: 39]، اور آیات جو انسان کے عمل اور کمائی کو اس کی طرف منسوب کرتی ہیں:
{
"اللہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ } [بقرة: 286]۔

مذہب اشاعیہ: اشاعیہ نے معتزلہ اور جہمہ کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کی، اور "کسب” کے نظریے کو پیش کیا۔ اس کے مطابق انسان اپنے افعال کا خالق ہے، مگر اللہ کی قدرت سے یہ ممکن ہوتا ہے۔ اللہ تعالی انسان کو یہ استطاعت دیتا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کام کرے، اور اس کے عمل میں اللہ کی قدرت کا دخل ہوتا ہے۔ تاہم، یہ نظریہ حقیقت میں جبر کے قریب پہنچ جاتا ہے۔

صحیح رائے:
ہماری نظر میں، اللہ تعالی نے اسباب پیدا کیے ہیں جن کے ذریعے انسان فعل کرتا ہے، اور اللہ ہی ان اسباب کا خالق ہے۔ انسان ان اسباب کو استعمال کرتا ہے، لیکن وہ ان اسباب سے جو نتیجہ نکالتا ہے وہ اس کا اپنا فعل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، چھری ایک سبب ہے، اور اس کا استعمال انسان کی مرضی اور اختیار پر منحصر ہے۔ اللہ انسان کو اس سبب کے استعمال کی استطاعت دیتا ہے، مگر انسان خود مختار ہوتا ہے کہ وہ اس کا استعمال کیسے کرتا ہے۔

اس سوال کے حوالے سے:
اگر کوئی شخص عمارت بناتا ہے، تو وہ عمارت کا بانی کہلائے گا، کیونکہ اس نے اللہ کے پیدا کردہ اسباب کو استعمال کیا ہے۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ "اللہ نے یہ عمارت بنائی”، کیونکہ عمارت بنانا ایک خاص عمل ہے جس میں صرف مواد اور اسباب کا ہونا کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں محنت اور جدوجہد بھی شامل ہوتی ہے۔

وعلیہ: نسبت اللہ تعالیٰ سے نسبت تخلیق ہے، اور مخلوق سے نسبت ایجاد ہے، تو جو شخص کہے کہ اللہ صانع ہے، یعنی محدث، تو وہ تجاوز کر رہا ہے، اور جو شخص کہے کہ انسان صانع ہے، یعنی وہ موجد ہے، تو وہ بھی تجاوز کر رہا ہے۔