View Categories

سوال7:کیا غیر مسلموں پر دعائے رحمت کرنا جائز ہے؟ اگر جواب نہیں میں ہے، تو ہم غیر مسلموں کی وفات پر خاص طور پر ان افراد کے بارے میں کیسے تبصرہ کریں جو اپنے پیغام اور حق کے لئے جدوجہد کے حوالے سے مشہور ہوں، جیسے صحافیہ شیرین ابو عاقلہ؟

جواب

یہاں معافی طلب کرنے اور رحمت طلب کرنے میں فرق ہے:جہاں تک گناہوں کی مغفرت کا تعلق ہے، بشمول اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے، یہ اللہ کا حق ہے اور اس کا سابقہ حکم ہے؛ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ [الزمر: 65]۔ اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے مغفرت کی دعا نہ کریں جو اللہ کے کلمے اور توحید کو قبول نہیں کرتے؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ [التوبة: 113]۔ لہٰذا مغفرت کا معاملہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔جہاں تک رحمت کی بات ہے، یہ بہت وسیع ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں میں شامل ہوتی ہے۔ رحمت ایک نرم دلی ہے جو مرحوم کے ساتھ حسن سلوک کا تقاضا کرتی ہے، اور اس معنی میں یہ تمام مخلوقات پر لاگو ہوتی ہے، چاہے وہ انسان ہوں یا جانور۔ رحمت کی دعا اللہ سے کی جاتی ہے، اور اس کا عملی اظہار بھی ہوتا ہے؛ جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے: «ایک شخص نے ایک کتے کو دیکھا جو پیاس کی وجہ سے مٹی کھا رہا تھا، تو اس نے اپنا جوتا لے کر اس سے پانی پلوایا، اللہ نے اس پر شکر ادا کیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا»۔ دوسری طرف ایک عورت بھی جہنم میں گئی کیونکہ اس نے ایک بلی کے ساتھ رحم نہیں کیا، نہ اسے کھانا دیا اور نہ ہی آزاد کیا تاکہ وہ مٹی کھائے، اور اس بلی کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئی۔ (یہ حدیث بخاری اور مسلم میں آئی ہے)۔ رحمت – خواہ دعا کی صورت میں ہو یا عمل کے طور پر – ہر کسی کے لیے مطلوب ہے، اور اس میں کسی مذہب یا دوسرے فرقے کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا۔

دوسرا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عباد اللہ پر رحم کو صدقات کے دروازوں میں شامل کیا؛ ایک حدیث میں آتا ہے: «یا رسول اللہ! کیا ہمیں جانوروں کے ساتھ بھی اجر ملے گا؟» تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ہر جاندار میں اجر ہے» (متفق علیہ)۔ لہذا رحمت کی دعا اور اس کا عمل ہر جاندار کے لیے مستحب ہے۔

تیسرا: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ایک عمومی اصول بیان کیا ہے: ﴿إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا﴾ [الكهف: 30]، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «جو تمہارے ساتھ احسان کرے، اس کا بدلہ دو، اور اگر تمہیں بدلہ دینے کی استطاعت نہ ہو تو اس کے لیے دعا کرو یہاں تک کہ تم محسوس کرو کہ تم نے اس کا بدلہ دے دیا» (رواہ احمد، ابو داود، النسائی)۔ یہ نص نہیں کہتی کہ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہے، بلکہ یہ ایک عمومی حکم ہے۔ لہذا ہم غیر مسلموں کے لیے بھی رحمت کی دعا کر سکتے ہیں جب تک اللہ نے اس کی اجازت دی ہو۔

چہارم: رحمت کے دروازے بہت وسیع ہیں، جن میں مصیبت کو دور کرنا، فائدہ پہنچانا، اور عذاب کو کم کرنا شامل ہیں۔ ابو طالب کے لیے رحمت کا معاملہ ہوا تھا کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرتے تھے، اس لیے وہ ابو جہل یا عاص بن وائل کی طرح عذاب میں نہیں مبتلا ہوئے، اگرچہ وہ سب کفر پر مرے تھے۔ اور یہ بھی آیا ہے کہ ابو لہب کو ہر پیر کو اس کی خوشی کی وجہ سے عذاب میں تخفیف دی جاتی ہے۔

پانچویں: صحافی شیرین ابو عاقلہ رحمہ اللہ، جو مظلوموں کی آواز اور کمزوروں کے حامی تھیں، وہ دنیا اور دین کے دشمنوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ اللہ ان کے کیے گئے کام کا اجر ضائع نہیں کرے گا، اور ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان کے ساتھ فضل کا معاملہ کرے اور ان پر رحم فرمائے۔ ہمارے دین میں یہ درست نہیں کہ صرف اس وجہ سے ایک قاتل جنت میں داخل ہو کہ وہ مسلمان تھا، اور ایک مظلوم جو اللہ کی شعائر کا دفاع کرتے ہوئے قتل ہو گیا، وہ جہنم میں جائے، چاہے وہ دفاع کرنے والا ہو۔ اس لیے ہمارا دین اور ان قاتلوں کا دین برابر نہیں۔ المفتي: ڈاکٹر خالد نصر