View Categories

سوال 23: نماز میں خشوع کی تعریف کیا ہے؟

جواب:

لفظ "خشوع” کے مختلف معنی ہیں، جو تعریف کے زاویے کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں:

لغوی اعتبار سے: خشوع کا مطلب ہے عاجزی، انکساری، اور خضوع۔ ابن فارس، ابن منظور اور فیروزآبادی نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {ﭩ ﭪ ﭫ} [الغاشیہ: 2] یعنی ذلیل اور عاجز۔

تفسیر اور فقہ کے لحاظ سے: خشوع دل کی ایک ایسی حالت ہے جس کا اثر جسم کے اعمال پر ظاہر ہوتا ہے۔ اگرچہ خشوع بنیادی طور پر دل کا عمل ہے، لیکن یہ اعمال میں بھی جھلکنا چاہیے۔ بعض نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ دل اور جسم کے اعمال میں ہم آہنگی ہونی چاہیے، جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "تم ریاکارانہ خشوع سے بچو۔” صحابہ نے پوچھا: ریاکارانہ خشوع کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: "کہ تم جسم کو خاشع دیکھو جبکہ دل خاشع نہ ہو۔”

اہل حقیقت کے اصطلاح میں:

ابتداء میں: طاعات میں جسم کا خضوع۔

درجات میں: نفس کی شکستگی۔

معاملات میں: اپنے نفس کی خامیوں پر نظر رکھتے ہوئے اپنی قدر میں کمی محسوس کرنا۔

اخلاق میں: فطری خواہشات کا سکون اور ہر صاحب فضل کی فضیلت کو پہچاننا۔

احوال میں: حالات کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا۔

ولایت میں: صفاء کی حد تک پہنچنے کے لیے فنا۔

حقائق میں: بندے کی صفات کا حق کی صفات میں فنا ہونا۔

نہایت میں: بقیہ سے تجرد اور دوئی کا خیال ترک کرنا

اور اسی پر: حقیقت کے اہل کے نزدیک خشوع دل کی ایک ایسی کیفیت ہے جو خضوع اور انکساری کا اظہار کرتی ہے اور یہ اعضا و جوارح میں بھی جھلکتی ہے: آنکھوں کا خشوع یہ ہے کہ نماز کے دوران ادھر اُدھر نہ دیکھیں؛ ہاتھوں کا خشوع یہ ہے کہ وہ نماز کے علاوہ کسی حرکت میں نہ آئیں؛ جسم کا خشوع یہ ہے کہ قیام، رکوع، سجدہ اور دیگر ارکانِ نماز کو صحیح طور پر ادا کرے؛ جبکہ دل اور روح کا خشوع یہ ہے کہ بندہ مادی دنیا سے نکل کر روحانیت کی دنیا میں پہنچ جائے۔

مثال: اس کی ایک مثال جلیل القدر تابعی حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کی ٹانگ میں ایسا مرض پیدا ہوا جس کا علاج صرف کاٹنے میں تھا۔ طبیب نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ شراب پی لیں تاکہ نشے کی حالت میں بترائی کے درد کو محسوس نہ کریں، مگر حضرت عروہ نے انکار کر دیا اور طبیب سے کہا: جب میں نماز میں داخل ہو جاؤں اور تشہد کے وقت بیٹھ جاؤں تو میری ٹانگ کاٹ دینا، کیونکہ جب میں اللہ کے حضور کھڑا ہوتا ہوں تو میرے دل میں سوائے اس کے اور کوئی خیال نہیں ہوتا۔

یہ خشوع کی بلند ترین مثال ہے، جس میں جسمانی دنیا روحانیت میں فنا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی درجہ بندی ہے جس تک صرف وہی پہنچتا ہے جسے اللہ نے منتخب کیا ہو۔ اس لحاظ سے خشوع ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو اعضا کے اعمال میں ظاہر ہوتی ہے اور اس میں ہم اللہ کے قریب ترین محسوس کرتے ہیں۔

خشوع کی اہمیت کے پیش نظر، یہ سب سے پہلے عبادات میں سے اٹھا لیا جائے گا، جیسا کہ بخاری، احمد اور دیگر احادیث میں آیا ہے۔ حضرت جُبیر بن نُفَیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا: "یہ وہ وقت ہے جب علم اٹھا لیا جائے گا۔” انصار کے ایک شخص، زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ، نے پوچھا: اے رسول اللہ ﷺ! علم کیسے اٹھایا جائے گا جبکہ ہم میں کتاب اللہ موجود ہے اور ہم نے اسے اپنی اولاد اور بیویوں کو بھی سکھا دیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میں تمہیں مدینہ کے سمجھدار لوگوں میں سے سمجھتا تھا۔” پھر آپ ﷺ نے اہل کتاب کی گمراہی کا ذکر کیا، حالانکہ ان کے پاس اللہ کی کتاب موجود تھی۔

آپ نے فرمایا: میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا: "یہ اس کے اوعیت کی کمی ہے۔” پھر آپ نے پوچھا: "کیا تم جانتے ہو کہ سب سے پہلا علم کیا ہے جو اٹھایا جائے گا؟” میں نے کہا: میں نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا: "خشوع، یہاں تک کہ تم ایک خاشع کو بھی نہیں دیکھ سکو گے۔”

اور سادہ الفاظ میں: خشوع کی سب سے بنیادی شکل میں تین امور شامل ہیں:

نماز کے اعمال میں جو کچھ ہم کہتے ہیں اور کرتے ہیں اس میں ذہن کا حاضر ہونا۔

یہ سب کچھ عاجزی اور سکون کے ساتھ کرنا۔

اللہ کی جلالت کو اپنے اقوال اور افعال میں حاضر رکھنا۔اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔