View Categories

س328):اگر کسی کو زمین پر کسی عوامی جگہ پر کوئی چیز ملے، جیسے ڈالر، سکے، یا کوئی سادہ کھلونا، اور وہاں ایسی کوئی انتظامیہ نہ ہو جسے مفقود چیز واپس کی جائے، تو اس چیز کا کیا حکم ہوگا؟ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہاں امریکہ میں اگر کسی کو ایک بٹوہ ملے جس میں پیسے ہوں، تو اس شخص کا حق ہے کہ وہ پوری رقم لے لے بغیر کسی پوچھ گچھ کے۔ لیکن اسلامی طور پر، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ بٹوے میں ایک شناختی کارڈ یا کوئی ایسی چیز ہو جو بٹوے کے مالک کا پتا لگانے میں مدد کرے، تاکہ اس بٹوے کو اس کے تمام مواد کے ساتھ واپس کیا جا سکے۔

جواب:
پہلا: اللقطة (لقطہ) لفظی طور پر اس چیز کو لینے کو کہا جاتا ہے جو کسی کو ملی ہو۔ اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ پس فرعون کے خاندان نے اسے (موسیٰ کو) اپنے گھر پال لیا تاکہ وہ ان کے لیے دشمن اور غم کا سبب بنے۔ بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کا یہ عمل بہت ہی غلط تھا} [قصص: 8]۔
اسلامی اصطلاح میں، اللقطة وہ مال ہوتا ہے جو کسی محفوظ جگہ (حرز) کے بغیر، جس کا مالک معلوم نہ ہو، کسی نے دریافت کیا ہو۔

مال معصوم:

 وہ مال ہے جو مسلمانوں، ذمیوں یا مستأمنین کا ہو۔

وجد في غير حرز:

 یعنی وہ مال کسی محفوظ یا مخصوص جگہ میں نہ ہو، جیسے کسی کے والد کی الماری میں رکھا مال جو ورثے میں ملے، یا حکام و اہل اقتدار کی خزائن میں پڑا مال، جس میں مال کا تعلق یا مالک کا تعین نہ ہو۔

دوسرا: فقہاء کا حکم:

 جماعتِ فقہاء کے نزدیک، اللقطة کو اٹھانا جائز ہے اور اگر کسی چیز کے ضائع ہونے یا خراب ہونے کا خدشہ ہو تو اس کا اٹھانا مستحب (مندوب) ہے۔
فقہاء کے مجموعی بیان سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اللقطة پر پانچ مختلف احکام لاگو ہوتے ہیں:

اللقطة الواجب:

 اگر مال کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو اس کا اٹھانا فرض ہے تاکہ اس کی حفاظت کی جا سکے۔

اللقطة المندوب:

 جب مال کے ضائع ہونے کا کوئی خوف نہ ہو اور آدمی اس بات پر اعتماد رکھتا ہو کہ وہ اس کا مالک تلاش کر لے گا۔

اللقطة المحرم:

جب مال کو اٹھانے والے کی نیت اس کے مالک کو واپس کرنے کی نہ ہو بلکہ وہ مال اپنے لیے رکھے۔

اللقطة المكروه:

 جب وہ شخص جس نے مال اٹھایا ہے، دیانتدار یا صاحب ایمان نہ ہو، تاکہ اسے اس مال میں خیانت کرنے کا موقع نہ ملے، اور وہ گناہ میں نہ پڑے۔

اللقطة المباح:

 جب مال اٹھانے اور چھوڑنے میں کوئی فرق نہ ہو، تو اسے اٹھانا یا چھوڑ دینا جائز ہے۔

تیسرا:

 دار الاسلام اور دار الحرب میں اللقطة کا حکم:
اسلامی فقہ میں دار اسلام (مسلمانوں کے علاقے) اور دار الحرب (جہاں مسلمان جنگ میں ہوں) میں فرق کیا گیا ہے۔

دار الاسلام میں یا دار کفر میں جہاں مسلمان امان کے ساتھ داخل ہوں، وہاں اللقطة کے بارے میں کوئی فرق نہیں ہے۔

دار الحرب میں، یعنی جہاں مسلمانوں کو دشمنوں نے محصور کر رکھا ہو، جیسے فلسطین یا کشمیر میں، اگر کسی کو ایسی چیز ملے جس کے بارے میں غالب گمان ہو کہ وہ دشمن کی ہے (جیسے صہیونی یا ہندو)، تو وہ مال غنیمت کے طور پر لیا جا سکتا ہے، اور اس کا مالک تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

نتیجہ:
اگر آپ کو کسی عوامی جگہ پر بٹوہ ملتا ہے اور اس میں شناختی کارڈ ہو، تو اسلامی طور پر یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اس بٹوے کو اس کے مالک تک پہنچائیں۔ اگر آپ کو مالک کا پتا چل جائے تو آپ کو اس بٹوے کو اس کی تمام اشیاء کے ساتھ واپس کرنا ہوگا۔ اگر آپ کو مالک نہیں ملتا، تو آپ اس مال کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں تاکہ وہ ضائع نہ ہو، لیکن اگر آپ نے نیت کی تھی کہ آپ اسے خود رکھیں گے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔

بنجم: بعض اہم احکام جو اللقطة المعصومة (محفوظ مال) سے متعلق ہیں، ان میں شامل ہیں:

١. اشہاد کرنا (گواہی دینا):

رسول اللہ کا فرمان ہے:
«
جو شخص کوئی کھوئی ہوئی چیز پائے، تو اسے چاہیے کہ وہ کسی عادل شخص کو گواہ بنائے، پھر نہ تو وہ چیز میں کوئی تبدیلی کرے اور نہ ہی اسے چھپائے۔ اگر اس کا مالک واپس آ جائے تو وہ مالک اس کا سب سے زیادہ حق دار ہے، اور اگر مالک نہ آئے، تو وہ اللہ کا مال ہے جسے اللہ جسے چاہے دے دے۔” ».
(حدیث احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ: عیاض بن حمار سے)۔

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللقطة (گمشدہ مال) کو اٹھانے کے بعد، اس پر گواہی دینا ضروری ہے، یعنی کسی عادل شخص (گواہ) سے گواہی لینا تاکہ کسی بھی شک سے بچا جا سکے۔ فقہاء میں اس بارے میں اختلاف ہے:

ظاہرہ اور بعض شافعی فقہاء کے مطابق، گواہی دینا ضروری ہے۔

جماعتِ فقہاء کا کہنا ہے کہ یہ مستحب (پسندیدہ) ہے، اور اگر گواہی نہ دی جائے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا کیونکہ ضمانت (مال کی حفاظت) کافی ہے۔

مال کی وصف اور تعداد جاننا:

حدیث زید بن خالد میں ہے:
« اس کی گمشدہ چیز (لقطہ) کا عِفَاصہ (باندھنے کی جگہ) اور وِکَاء (گرہ) جانچ لو »
(بخاری و مسلم)۔
"عِفَاص” وہ چیز ہے جس میں مال رکھا جاتا ہے، جیسے ہمارے زمانے میں بٹوہ یا بیگ، اور "وِكَاء” وہ رسی یا دھاگہ ہے جس سے پیسے کی گٹھڑی باندھی جاتی ہے۔ اس حدیث سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مال کی نوعیت اور تفصیلات جاننا ضروری ہے تاکہ یہ آپ کے مال سے مشابہ نہ ہو اور غلط فہمی نہ ہو۔

تعریف کرنا:

رسول اللہ نے فرمایا:
«
جو شخص گمشدہ مال کو پناہ دیتا ہے، وہ گمراہ ہے جب تک کہ وہ اس مال کو پہچاننے کی کوشش نہ کرے (اور اس کے مالک کو واپس نہ کرے)۔” »
(مسلم: حدیث زید بن خالد)
"جو شخص گمشدہ مال کو اپنے پاس رکھے اور اس کا تعارف نہ کرائے، وہ گمراہ ہے جب تک کہ وہ اس کا تعارف نہ کرے۔”
ایک اور حدیث میں ہے:
«… اسے (گمشدہ مال کو) ایک سال تک پہچاننے کی کوشش کرو۔ً»
"اسے ایک سال تک لوگوں میں اعلان کریں۔”

تعریف کی کوئی ایک خاص طریقہ نہیں ہے، بلکہ یہ عام طور پر لوگوں کے عرف کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔ آپ اسے مختلف ذرائع سے اعلان کر سکتے ہیں جیسے:

سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا۔

مسجد یا کمیونٹی سینٹر میں اعلان کرنا۔

کسی اور عوامی مقام پر اشتہار دینا۔

لیکن اس دوران آپ کو اپنی ذاتی زندگی اور خاندان کے تحفظ کا خیال رکھنا چاہیے، یعنی ایسے اقدامات سے بچنا چاہیے جس سے آپ کی ذاتی معلومات یا آپ کی کمیونٹی کی حفاظت متاثر ہو۔

ایک سال تک مال کو اپنے پاس رکھنا:

اللہ کے رسول نے فرمایا ہے کہ گمشدہ مال کو واپس کرنے سے پہلے، اسے ایک سال تک اپنے پاس رکھنا ضروری ہے۔ یہ اس لیے ہے تاکہ آپ اس کا مالک تلاش کر سکیں۔ اگر آپ نے ایک سال تک اس کا مالک نہ پایا، تو پھر آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں۔

استثنیات:

 کچھ صورتوں میں تعارف ضروری نہیں ہوتا:

چھوٹے مال جیسے معمولی رقم جو چوری کی حد میں نہ آئے۔

وہ چیزیں جو جلدی خراب ہو سکتی ہیں جیسے پھل، سبزیاں، گوشت، اور مچھلی۔

وہ مال جس کا تعارف آپ کی سلامتی یا حکومتی ظلم کا باعث بن سکتا ہو۔

. چھوٹا مال اور مخصوص حالات:

چھوٹے مال (جیسے معمولی رقم) کو تین دن تک رکھا جا سکتا ہے، جبکہ باقی مال کو ایک سال تک تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

خلاصہ: اسلامی فقہ میں گمشدہ مال (لقطة) کے حوالے سے یہ اہم اصول ہیں:

گواہی لینا، تاکہ مال کے مالک تک پہنچایا جا سکے۔

مال کی تفصیل جاننا، تاکہ یہ آپ کے مال سے نہ ملے۔

اعلان کرنا، تاکہ مالک تک پہنچا جا سکے۔

ایک سال تک اس کا تعارف کرنا ضروری ہے، تاکہ مال ضائع نہ ہو۔

اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے، تو اللقطة کی حالت میں اسلامی فقہ کے مطابق عدل و انصاف قائم رہتا ہے

ملتقط کا ضامن ہونا: جب گمشدہ چیز کا مالک واپس آتا ہے، تو ملتقط (چیز اٹھانے والا) کو اسے واپس کر دینا چاہیے یا اگر وہ اس کو استعمال کر چکا ہے تو اس کی قیمت دینی چاہیے۔ یہاں دو صورتیں ہیں:

پہلا حال: اگر مالک گمشدہ مال کو مکمل سال ہونے سے پہلے واپس آ کر طلب کرتا ہے، تو ملتقط پر فرض ہے کہ وہ اس مال کو واپس کرے۔

دوسرا حال: اگر مالک سال مکمل ہونے کے بعد آتا ہے، تو ملتقط پر فرض ہے کہ وہ مال کو واپس کرے یا اس کی قیمت دے۔

اگر کوئی مالک سال گزرنے کے بعد نہ آئے، تو بیشتر فقہاء کے مطابق، ملتقط مال کو اپنے لیے رکھ سکتا ہے، چاہے وہ غریب ہو یا امیر۔ یہ رائے شافعیہ، حنبلیہ، اور ظاہرہ کے مطابق ہے۔

احناف اور مالکیہ کے درمیان اس معاملے میں فرق ہے:

احناف کے مطابق غریب کو مال رکھنا جائز ہے، لیکن امیر کو اس مال کو صدقہ کر دینا چاہیے۔

مالکیہ کے مطابق، غریب کے لیے مال رکھنا جائز ہے، جبکہ امیر کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ مال رکھے یا صدقہ دے۔

نتیجہ:

معمولی یا چھوٹے مال (جو عموماً لوگ معمولی سمجھتے ہیں، جیسے سوال میں ذکر کردہ ڈالر، سکے، یا سادہ کھلونے) کو اٹھانا اور اس پر تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ یہ چیزیں عام طور پر اہم نہیں سمجھی جاتیں۔

ان چیزوں کے بارے میں تعارف کرنے کی ضرورت نہیں، جیسے سڑک پر پڑی ہوئی قلمیں یا کاغذ، یا جو لوگ اپنے گھروں کے سامنے پارکنگ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

ایسی چیزوں کا تعارف اس وقت ضروری ہے جب ان کی کوئی معقول یا عرفی قیمت ہو، کیونکہ اگر کسی چیز کی قیمت اہم سمجھی جائے تو اس کا تعارف کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔خلاصہ:
چھوٹی، معمولی، یا عرف کے مطابق غیر اہم چیزوں کو اٹھانے میں کوئی حرج نہیں اور ان پر تعارف ضروری نہیں، لیکن اگر چیز کی قیمت یا اہمیت ہو تو اس کا تعارف ضروری ہے تاکہ مالک تک پہنچایا جا سکے۔