والدین ان خلیوں کو خون کے خصوصی بینکوں میں محفوظ کر سکتے ہیں تاکہ خاندان کے دوسرے افراد، جیسے کہ بہن بھائی، ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
والدین ان خلیوں کو خون کے بینکوں میں عطیہ کر سکتے ہیں تاکہ کوئی بھی ضرورت مند شخص ان سے استفادہ کر سکے۔یا پھر یہ خلیے پیدائش کے بعد طبی فضلے کی طرح تلف کردیے جائیں۔
اب تک عمومی طور پر تیسرے اختیار کا عمل ہوتا رہا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا پہلے اور دوسرے اختیار میں کوئی شرعی مشکل ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب والدین کو ان خلیوں کی ضرورت کا علم نہیں ہوتا؟
جواب:
اولً: نالہ وہ نلک ہے جو رحم میں بچے کو مادری جڑ سے جوڑتا ہے۔ اس کا کام بچے کے جسم سے فضلہ نکالنا اور ماں کے خون میں شامل کرنا ہے، جہاں سے اس میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پیشاب کی مصنوعات خارج کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نالہ ماں سے بچے تک آکسیجن اور غذائی اجزاء پہنچاتا ہے۔
پیدائش کے بعد نالہ کے باقیات دس دن کے اندر ختم ہو جاتی ہیں، اور ان کا مقام بچے کے ناف کے قریب ہوتا ہے۔ اس لیے نالہ ماں اور بچے کے درمیان ایک راستہ ہے، لیکن نہ یہ ماں کا حصہ ہے اور نہ ہی بچہ کا حصہ۔
دومً: اسٹیم سیلز وہ بنیادی خلیے ہیں جن سے تمام دوسرے خلیے پیدا ہوتے ہیں جو جسم کے مخصوص کاموں کے لیے مختص ہوتے ہیں۔ یہ خلیے مناسب حالات میں جسم یا لیب میں تقسیم ہو کر مزید خلیوں کی صورت اختیار کرتے ہیں، جنہیں "ولیدہ خلیے” (Progenitor Cells) کہا جاتا ہے۔
اس خلاصے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ شرعی طور پر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، اگر ان خلیوں کا استعمال علاج کے لیے ہو اور یہ درست طریقے سے محفوظ اور استعمال کیے جائیں۔ تاہم، اس کے حوالے سے مزید تفصیلی شرعی احکام کے لیے کسی عالم دین سے مشورہ ضروری ہو سکتا ہے۔
یہ خلايا الولیدہ یا تو نئی خلايا جذعیہ میں تبدیل ہو سکتی ہیں یا پھر متخصص (متمايز) خلیے بن سکتی ہیں جن کا کوئی خاص کام ہوتا ہے، جیسے کہ خلايا الدم (خون کے خلیے)، خلايا الدماغ (دماغ کے خلیے)، خلايا عضلة القلب (دل کے پٹھے کے خلیے)، یا الخلايا العظمية (ہڈیوں کے خلیے)۔ جسم کے دیگر خلیے اس قدرتی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں کہ وہ نئے خلیوں کی قسمیں پیدا کر سکیں۔
خلايا جذعیہ کے ذرائع مختلف ہیں:
خلايا جذعیہ جنینیہ (Embryonic Stem Cells):
یہ خلیے 3 سے 5 دن کے درمیان کی عمر کے جنین سے حاصل کیے جاتے ہیں، اور اس مرحلے میں جنین کو کِیسہ اُریمیہ (Blastocyst) کہا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں جنین میں تقریباً 150 خلیے ہوتے ہیں۔ یہ خلیے زیادہ توانائی اور صلاحیت رکھتے ہیں تاکہ مختلف قسم کے خلیے بنائیں۔
خلايا جذعیہ بالغة (Adult Stem Cells):
یہ خلیے بالغوں کے جسم کے مختلف حصوں میں کم مقدار میں پائے جاتے ہیں، جیسے نخاع العظم (ہڈی کا گودا) یا چربی۔ بالغ خلیے نسبتاً کم قابلیت رکھتے ہیں کہ وہ جسم کے مختلف خلیے بنا سکیں، اس کے برعکس جنینی خلیے اس میں زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
خلايا جذعیہ ناتجة عن إعادة البرمجة الوراثية (Induced Pluripotent Stem Cells):
محققین بالغ خلیوں کو وراثی طور پر دوبارہ پروگرام کر سکتے ہیں تاکہ وہ جنینی خلیوں جیسی خصوصیات حاصل کر سکیں اور ان کے کام کو دوبارہ انجام دیں۔
خلايا جذعیہ قبل الولادة (Prenatal Stem Cells):
محققین نے یہ دریافت کیا ہے کہ سائل سَلوِی (جنین کے ارد گرد کا سیال) اور دم الحبل السری (حبل سری کا خون) میں بھی خلايا جذعیہ موجود ہیں۔ یہ خلیے بھی متخصص خلیوں میں تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ مختلف اقسام کی خلاۓ جذعیہ میڈیکل سائنس میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں، جیسے کہ خون کے امراض، دل کی بیماریوں، یا دوسرے نقصان شدہ یا خراب ہوئے بافتوں کو دوبارہ بنانے کے لیے۔
سوم:
خلیوں کے علاج، جسے طب تجدیدی بھی کہا جاتا ہے، بیمار یا غیر معمولی طور پر کام کرنے والی یا زخمی ہو چکی ٹشوز کو خلیوں یا ان کے مشتقات کی مدد سے ٹھیک کرنے کا عمل ہے۔ یہ اعضاء کی پیوندکاری کے میدان میں سب سے جدید اختراعات میں سے ایک ہے، جس میں خلیوں کا استعمال کیا جاتا ہے، نہ کہ محدود دستیابی والے دیتے گئے اعضا۔
تحقیقات کرنے والے ماہرین خلیوں کی پیوندکاری کے لیے انہیں لیبارٹریوں میں اگاتے ہیں، اور ان خلیوں کو خاص طور پر مخصوص قسم کے خلیوں جیسے کہ دل کے پٹھے کے خلیے، خون کے خلیے، یا اعصابی خلیے بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس کے بعد، ان مخصوص خلیوں کو مریض میں زراعت کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی شخص کو دل کی بیماری ہو، تو ان خلیوں کو دل کے پٹھوں میں انجیکٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد، صحتمند دل کے پٹھے جو پیوند کی صورت میں لگائے گئے ہیں، دل کے زخمی پٹھے کی مرمت میں مدد کر سکتے ہیں۔
(جو معلومات یہاں خلیوں کے بارے میں دی گئی ہیں وہ میکیو کلینک کی ویب سائٹ سے لی گئی ہیں)
چہارم:
علاج کرنا اور زندگی کی حفاظت شریعت میں مستحب ہے، بشرطیکہ یہ طریقہ ایسا ہو جو شرع سے منع نہ ہو۔ شرع زندہ انسان کا خون دینے کو اس کی اصل حالت میں منع نہیں کرتی (حالانکہ بعض لوگ اعضا کے عطیے کو منع کرتے ہیں اور میں ان میں شامل نہیں ہوں)، کیونکہ خون ایسا عنصر ہے جو وقت کے ساتھ دوبارہ پیدا ہوتا رہتا ہے۔
والاستفادة بالحبل السري بعد الولادة:
(شرطًا) اس کا استعمال بالکل جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کو براہ راست استعمال کرنا یا اسے خصوصی بنکوں میں محفوظ کرنا تاکہ بعد میں استعمال کیا جا سکے، دونوں جائز ہیں۔ اس میں ماء الرجل (مرد کا پانی) یا بويضة المرأة (عورت کا بیضہ) جیسا کوئی مسئلہ نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حبل سري ایک نلکی ہے، جس میں خلیے ہوتے ہیں، اور یہ ویسا ہی ہے جیسے شریانیں یا وریدیں یا دوسری نلکیاں۔
بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عورت حبل سري کا تبرع کرتی ہے، تو اسے زندگی بچانے کے اجر کا ثواب ملے گا، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
{ جس نے کسی زندگی کو بچایا، تو گویا اس نے تمام انسانوں کی زندگی بچائی (مائدة: 32)س