View Categories

س396): کیا حضرت نوح علیہ السلام کی نسل میں ان کے ہلاک ہونے والے بیٹے کے علاوہ اولاد تھی؟ اور کیا ان کی نسل میں انبیاء پیدا ہوئے؟

ج):
پہلا جواب
:
مشہور تاریخی اور سیرت کی روایت کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کے چار بیٹے تھے۔ ان میں سے تین بیٹے—حام، سام، اور یافث—حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے اور بچا لیے گئے، جبکہ چوتھا بیٹا، جیسا کہ سورہ ہود میں ذکر ہوا، ایمان نہ لایا اور غرق ہو کر ہلاک ہوگیا۔

اس پر دلیل حضرت حسنؓ کی روایت ہے، جو سمرة بن جندبؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے اللہ کے اس فرمان:
” اور ہم نے ان کی نسل کو باقی رکھنے والا بنایا۔ ” [صافات: 77]
کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: "حام، سام، اور یافث”۔
(روایت احمد اور ترمذی، جنہوں نے اسے حسن غریب قرار دیا)

ایک اور روایت ابن مردویہ سے نقل کی گئی ہے جس کے مطابق کشتی میں بچنے والے بیٹوں میں چوتھا بیٹا "کوش” بھی شامل تھا۔ یہ روایت ابن الملقن، سیوطی، اور شوکانی نے نقل کی ہے۔

دوسرا جواب:
جمہور مفسرین کا یہ موقف ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں آنے والا طوفان ایک عالمی آفت تھی، جس نے زمین پر موجود تمام لوگوں کو ہلاک کر دیا، سوائے ان لوگوں کے جو کشتی میں سوار تھے۔ اس پر قرآن کی آیات سے استدلال کیا جاتا ہے، جیسے:
"
تو ہم نے انہیں اور ان کے ساتھ والوں کو کشتی میں بھر کر بچا لیا، پھر باقی لوگوں کو غرق کر دیا ” [شعراء: 119-120]
اور
” بیشک وہ بہت بُری قوم تھے، پھر ہم نے انہیں تمام کا تمام غرق کر دیا۔ ” [صافات: 75-82]

ابن کثیر فرماتے ہیں:
"سفینہ پانی کی سطح پر چل رہی تھی، جو زمین کے ہر حصے کو ڈھانپے ہوئے تھا”۔

تاہم، کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ طوفان ایک محدود علاقائی آفت تھی، جو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے لیے عذاب کے طور پر آئی، جیسے دیگر قوموں—عاد، ثمود، اور لوط کی قوم—پر ان کے مخصوص علاقوں میں عذاب آیا تھا۔ ان کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے:
"ف پھر ہم نے انہیں اور جو ان کے ساتھ تھے، کشتی میں نجات دی اور انہیں جانشین بنایا، اور ہم نے ان لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ ” [یونس: 73]
اس آیت میں "الَّذِينَ كَذَّبُوا” کا ذکر صرف ان لوگوں پر عذاب کے نفاذ کو ظاہر کرتا ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت تک پہنچے تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت پوری دنیا کے انسانوں تک نہیں پہنچی تھی

تیسرا جواب:
قرآنِ کریم کے ظاہری نصوص سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد آنے والے انبیاء ان لوگوں میں سے تھے جو طوفان میں بچا لیے گئے، چاہے وہ حضرت نوح کی اولاد میں سے ہوں یا ان کے علاوہ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"”یہ نوح کے ساتھ جو ہم نے کشتی میں سوار کی تھی ان کی نسل ہے، یقیناً وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔"ا” [اسراء: 3]
اور
” "یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، انبیاء کی نسل سے، آدم کی نسل سے اور ان لوگوں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا۔” ” [مريم: 58]

یہ دونوں آیات عام ہیں اور ان میں تمام بچ جانے والوں کو شامل کیا گیا ہے۔

تاہم، کچھ علماء نے کہا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد انبیاء اور باقی نسل صرف ان کے تین بیٹوں (سام، حام، یافث) سے ہی آگے بڑھی۔ ان کے مطابق کشتی میں جو دوسرے لوگ بچائے گئے تھے، ان کی کوئی نسل آگے نہیں چلی۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
اور ہم نے ان کی نسل کو باقی رکھنے والا بنایا۔” ” [صافات: 77]

ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
"جب نوح علیہ السلام کشتی سے نکلے تو ان کے ساتھ بچنے والے مرد اور عورتیں وفات پا گئے، سوائے ان کے بیٹوں اور ان کی بیویوں کے۔”
قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام انسان حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔”
ابن عاشور فرماتے ہیں:
"آیت میں ‘ذُرِّيَّتَهُ هُمُ الْبَاقِينَ’ کے الفاظ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صرف نوح کی نسل باقی رہی۔”

خلاصہ:

طوفان کے تمام زمین کو لپیٹ میں لینے پر کوئی قطعی دلیل نہیں۔

اس بات پر بھی کوئی قطعی دلیل نہیں کہ اس دور میں زمین پر موجود تمام لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
تاہم، یہ نظریہ زیادہ تر مفسرین کے نزدیک غالب ہے کہ انسانیت صرف حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے آگے بڑھی۔

جواب):

پہلا نکتہ:
لفظ "امام” لغت میں مقصد یا رہنما کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ "امّ الشیء” کا مطلب کسی چیز کا قصد کرنا ہے، اور امام وہ ہوتا ہے جس کی طرف لوگوں کے معاملات رجوع کرتے ہیں اور وہ قیادت یا رہنمائی کرتا ہے۔

نماز میں امام وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔

علم کے میدان میں امام وہ ہوتا ہے جس کے گرد لوگ علم حاصل کرنے کے لیے جمع ہوں۔

قوم و ملت کا امام وہ ہوتا ہے جو حکومت اور فیصلوں میں قیادت کرے۔

یہاں قیادت اور سربراہی ایک غیر جانبدار تصور ہے، یعنی یہ نیک اور بد دونوں کے لیے ہو سکتی ہے۔ اس لیے "امام عدل” (انصاف کا امام) اور "امام جور” (ظلم کا امام) دونوں الفاظ درست ہیں۔
قرآن نے ان دونوں معانی کو استعمال کیا ہے:

ہدایت کی امامت کے لیے فرمایا:
"اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے ہیں” [بقرة: 124]۔

شر کی امامت کے لیے فرمایا:
"
اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔” ” [قصص: 41]۔

لہذا امام وہی ہے جو کسی بھی شعبے میں رہنمائی یا قیادت کا درجہ حاصل کرے، خواہ نیکی میں ہو یا برائی میں۔


دوسرا نکتہ:
قرآن اور حدیث میں "امام” کا استعمال ایک عمومی تصور کے طور پر ہوا ہے:

قرآن میں امام واحد اور جمع دونوں صورتوں میں آیا:

"إ یقیناً میں تجھے لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ” [بقرة: 124]۔

" اور ہم نے متقیوں کو امام بنایا۔" ” [فرقان: 74]۔

حدیث میں امام کا ذکر بطور عدل اور ذمہ داری کے طور پر آیا:

"إِمَامٌ عَادِلٌ” (سات افراد میں سے جنہیں قیامت کے دن اللہ کا سایہ نصیب ہوگا) [صحیح بخاری]۔

” امام (رہنما) ایک چرواہا ہے اور وہ اپنی رعیت (عوام) کے بارے میں جوابدہ ہے” [صحیح بخاری و مسلم]۔

تاہم، صحابہ اور دیگر شخصیات کے لیے "امام” کا خصوصی لقب عام طور پر استعمال نہیں کیا گیا، حالانکہ حدیث میں نبی کریم نے فرمایا:
"الأَئِمَّةُ مِنْ قُرَيْشٍ” (قیادت قریش سے ہوگی) [مسند احمد]۔
لیکن حضرت ابوبکرؓ نے اپنے لیے "امام” کی بجائے "خلیفہ” کا لفظ استعمال کیا۔ ان کے بعد حضرت عمرؓ کو "امیر المؤمنین” کہا گیا، اور یہی سلسلہ حضرت عثمانؓ اور دیگر خلفائے راشدین کے ساتھ جاری رہا۔


تیسرا نکتہ:
شیعہ مذہب میں "امام” کا تصور زیادہ خاص اور مذہبی ہے، اور انہوں نے اسے اہل بیت کے چند افراد کے لیے محدود کر دیا، جیسے:

حضرت علیؓ،

حضرت حسینؓ،

حضرت جعفر صادقؓ،

اور امام مہدی (غائب)۔

اہل سنت نے اس تصور کو عمومی اور زیادہ وسیع رکھا اور اسے مخصوص شخصیات کے لیے محدود کرنے سے اجتناب کیا۔ اسی لیے اہل سنت کے ہاں:

"امام ابو بکر” یا "امام عمر” جیسے القاب عام نہیں ہیں۔

بلکہ انہیں "خلیفہ” یا "امیر المؤمنین” کہا جاتا ہے، جو ان کے سیاسی اور اجتماعی کردار کو زیادہ واضح طور پر بیان کرتا ہے۔


خلاصہ:
لفظ "امام” کا استعمال اسلام میں عمومی قیادت یا رہنمائی کے لیے ہوا ہے، اور اہل سنت نے اس اصطلاح کو مخصوص افراد کے لیے محدود کرنے کی بجائے اسے وسیع معنوں میں برقرار رکھا۔ خلفائے راشدین کو ان کی حیثیت کے مطابق "خلیفہ” یا "امیر المؤمنین” کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے سیاسی اور مذہبی کردار کو زیادہ واضح طور پر نمایاں کیا جا سکے۔

جواب:

پہلا نکتہ:
لفظ "امام” کا استعمال ابتدائی طور پر نماز کی امامت تک محدود تھا۔

اگرچہ بعض مواقع پر لفظ "امام” صحابہ کرام کے لیے بطور اشارہ استعمال ہوا، جیسے حضرت عثمانؓ کے بارے میں روایت:
"إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ، وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى” (آپ عوام کے امام ہیں، اور آپ پر جو مصیبت آئی ہے وہ ہم دیکھ رہے ہیں) [صحيح البخاري]۔
لیکن یہ استعمال رسمی لقب کے طور پر نہیں تھا بلکہ عمومی حوالہ کے طور پر تھا۔


دوسرا نکتہ:
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد لفظ "امام” کا استعمال زیادہ نمایاں ہوا، خاص طور پر سیاسی وجوہات کی بنا پر۔

حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان خلافت کے تنازع نے اس لفظ کو مخصوص شخصیات کے لیے استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا۔

حضرت علیؓ کو "امام” کہنے کی ابتدا ایک امتیازی سیاسی موقف کے طور پر ہوئی تاکہ حضرت معاویہؓ کی قیادت کے مقابلے میں ان کی حیثیت کو نمایاں کیا جا سکے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت علیؓ کو خلافت کے ابتدائی ایام میں یا حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کے دور میں "امام” کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا، حالانکہ ان کے حمایتی خلافت کے وقت انہیں بیعت کے لیے پیش کر چکے تھے۔


تیسرا نکتہ:
اموی خلافت کے عہد میں اسلامی فتوحات کے پھیلاؤ، علوم کی ترقی، اور نئے نسل کے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے باعث لفظ "امام” کا استعمال بڑھا۔

عباسی خلفاء نے بھی اپنے آپ کو "امام” کہلانا شروع کیا، اور یہ لقب صرف اہل بیت یا شیعہ گروہ تک محدود نہیں رہا۔

اہل حجاز، اہل شام، اور عراق کے علماء نے بھی اپنے اپنے فقہی یا دینی قائدین کو "امام” کے لقب سے یاد کرنا شروع کیا، جیسا کہ امام مالک، امام ابو حنیفہ، اور دیگر۔


خلاصہ:
لفظ "امام” کا ابتدائی استعمال محدود اور غیر رسمی تھا، لیکن حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد یہ سیاسی اور دینی حیثیت کی علامت بن گیا۔ حضرت علیؓ کے لیے اس لفظ کا استعمال زیادہ تر شیعہ تحریک سے منسلک ہوا، اور بعد کے ادوار میں یہ مختلف مسلم گروہوں میں مذہبی قیادت کے لیے عام طور پر استعمال ہونے لگا۔

خلاصہ اور وضاحت:

اصطلاح کا ارتقاء:
لفظ "امام” جو ابتدا میں صرف نماز کے امام یا قائد کے لیے استعمال ہوتا تھا، وقت کے ساتھ مختلف مذہبی، علمی، اور سماجی شعبوں میں استعمال ہونے لگا۔

ابتدائی استعمال: امام کا مطلب وہ شخص جو کسی گروہ یا معاملے کی قیادت کرے۔

مذاہب کے دور میں: مذاہب فقہیہ (جیسے حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کے بانیان کو "امام” کہا جانے لگا۔

اہل علم: حدیث، تفسیر، فقہ، اور علم کلام کے بڑے ماہرین کو بھی امام کے لقب سے نوازا گیا، جیسے:

امام احمد بن حنبل: "امام اہل السنہ”۔

امام الماتریدی: "امام الہدیٰ”۔

امام الجوینی: "امام الحرمین”۔

امام ابن خزیمہ: "امام الائمہ”۔

قراءات القرآن میں استعمال:
قرآن کے سات یا دس قراءتوں کے سلسلے میں بھی قراء کو امام کہا جانے لگا، جیسے:

نافع کو امام کہا جاتا ہے جبکہ اس کے راوی ورش اور قالون کہلاتے ہیں۔

شیعہ اور سنی دونوں میں رواج:
لفظ امام کا استعمال شیعہ اور سنی دونوں مکاتب فکر میں ہوا، اور یہ کسی ایک گروہ کی ایجاد یا اثر نہیں۔

شیعہ میں لفظ "امام” ائمہ معصومین کے لیے استعمال ہوا، جیسے امام علیؓ، امام حسینؓ، اور غائب امام۔

سنی حلقوں میں یہ فقہاء، محدثین، اور علما کے لیے استعمال ہوا۔

. جدید دور میں:

عہد عثمانی اور بعد کے ادوار میں: امام کا مطلب ہر بڑے عالم یا قائد کے لیے استعمال ہونے لگا۔

شیخ الازہر: شیخ الازہر کو "امام الاکبر” کہا جانے لگا، اور یہ لقب رسمی طور پر شیخ محمود شلتوت سے شروع ہوا۔نتیجہ:
لفظ "امام” کا استعمال اسلامی تاریخ میں ایک ارتقائی سفر کا حصہ ہے، جو ثقافتی اور علمی ترقی کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا۔ اس کا تعلق صرف شیعہ اثر سے جوڑنا درست نہیں، کیونکہ یہ سنی حلقوں میں بھی اتنا ہی مقبول اور متنوع ہے