View Categories

سوال :110:ذوالحجہ کے آغاز سے لے کر قربانی کرنے تک، قربانی کرنے والے کے لیے بال کاٹنے اور ناخن تراشنے کے کیا احکام ہیں؟

 

جواب:

اس مسئلے کی بنیاد ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیث ہے،

 جسے امام مسلم اور دیگر محدثین نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذوالحجہ کا چاند نظر آ جائے، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے، یہاں تک کہ قربانی کر لے۔”

مذاہب اربعہ (چاروں مذاہب) کے فقہاء نے اس حدیث کی روشنی میں مختلف آراء پیش کی ہیں

احناف کا موقف

 احناف کے نزدیک بال اور ناخن کاٹنا جائز ہے اور قربانی کے احکام حج کے

 احکام سے الگ ہیں، اس لیے قربانی کرنے والے کے لیے ویسے ہی چیزیں جائز ہیں جیسے عام مسلمانوں کے لیے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: "بال کاٹنا اور ناخن تراشنا مکروہ نہیں، کیونکہ قربانی کرنے والے پر جماع اور لباس ممنوع نہیں، لہذا بال کاٹنا اور ناخن تراشنا مکروہ نہیں، جیسے کہ اگر قربانی کا ارادہ نہ کیا ہو۔"

شافعیہ کا موقف

شافعی فقہ میں یہ مکروہِ تنزیہی ہے، یعنی ناپسندیدہ ہے مگر حرام نہیں۔ اس سے حدیث پر بھی عمل ہو جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ بات قطعی طور پر حرمت پر دلالت نہیں کرتی۔ امام نووی رحمہ اللہ المجموع میں فرماتے ہیں: "ہمارے (شافعی) مذہب میں بال کاٹنا اور ناخن تراشنا مکروہِ تنزیہی ہے، جب تک قربانی نہ کر لی جائے۔"

حنابلہ کا موقف

 حنابلہ کے نزدیک، ذوالحجہ کے آغاز سے قربانی کرنے تک بال اور ناخن کاٹنا حرام ہے

ابن قدامة حنبلی رحمہ اللہ نے فرمایا: "جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور عشرے (ذوالحجہ کے پہلے عشرے) میں داخل ہوتا ہے، تو اسے اپنے بال اور جلد سے کچھ نہیں لینا چاہیے۔ اس کا ظاہر یہ ہے کہ بال کاٹنا حرام ہے، اور یہی بعض اصحاب کے قول کے مطابق ہے، اور ابن منذر نے یہ امام احمد، اسحاق اور سعید بن مسیب سے نقل کیا ہے۔ قاضی اور ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ یہ مکروہ ہے، حرام نہیں۔”

تیسرا:

 ہمارے نزدیک ساداتِ احناف کا مکتب فکر راجح ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں

نصوص کا تنازع

 اس باب میں نصوص میں تضاد پایا جاتا ہے۔ حضرت ام سلمہ کی حدیث کے

 علاوہ، حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے جو اس سے زیادہ قوی ہے، جس میں انہوں نے کہا: "میں رسول اللہ ﷺ کے قربانی کے جانور کے لیے قلائد (پہننے کے لیے زنجیریں) بناتی تھی، پھر آپ ﷺ اسے اپنے ہاتھ سے گلے میں ڈال دیتے تھے، اور آپ پر اللہ کے حلال کردہ کسی چیز کا حرام ہونا نہیں تھا، یہاں تک کہ آپ ﷺ قربانی کریں۔”

یہ بات کئی وجوہات کی بنا پر حضرت ام سلمہ کی روایت سے زیادہ مضبوط ہے:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت ام سلمہ سے زیادہ فقیہ، زیادہ محفوظ راوی اور نبی ﷺ کے قریب تھیں۔

حضرت عائشہ نے نبی ﷺ سے ایک ایسا فعل روایت کیا ہے جو اس کے پہلے والی بات کو منسوخ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حضرت عائشہ کی روایت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ حکم آپ ﷺ کی وفات تک برقرار رہا، جبکہ حضرت ام سلمہ کی روایت میں کوئی خاص وقت کا ذکر نہیں ہے، جو نسخ کا علم دینے میں مدد کرتا ہے۔

حضرت عائشہ کی روایت میں امام بخاری اور مسلم دونوں نے اتفاق کیا ہے، جبکہ حضرت ام سلمہ کی روایت میں صرف مسلم کی طرف سے ہے۔

ان وجوہات کی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ سادات احناف کا موقف زیادہ مستند ہے۔

آپ کی طرف سے پیش کیے گئے نکات پر تفصیل سے بات کی گئی ہے

مشابہت حجاج

 احناف نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر منع کا مقصد حاجی کی مشابہت ہے، تو پھر قربانی کرنے والے کے لیے بھی دیگر ممنوعات، جیسے کہ جماع اور مخیط لباس (چوکا کپڑا) پہننا، بھی ممنوع ہونا چاہیے۔ تو پھر صرف حلق اور ناخن کاٹنے پر پابندی کیوں؟

حاجی کی صورت حال

اگر قربانی کرنے والے کو حاجی کی مانند سمجھا جائے، تو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ حاجی کو صرف حالِ احرام میں حلق اور تقصیر سے روکا گیا ہے، نہ کہ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں۔ تو قربانی کرنے والے کو اس سے زیادہ کی پابندی کیوں عائد کی جائے؟

اجحاف:

قربانی کرنے والے کو حلق اور ناخن کاٹنے سے روکنا ایک طرح کا اجحاف ہے۔ قربانی

 کرنے والا نیکی کر رہا ہے، جبکہ دوسروں کو اس پر کوئی پابندی نہیں، تو یہ بات شریعت میں درست نہیں۔

نظافت اور عید کی تیاری

حلق اور ناخن کاٹنے پر پابندی، خاص طور پر اگر قربانی کے دن

 گیارہویں یا بارہویں تاریخ کو کی جائے تو یہ دشواری کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ اسلام کی صفائی کے احکام کے خلاف ہے اور عید کے دن غسل اور صفائی کے احکام کے بھی خلاف ہے، کیونکہ قربانی نماز کے بعد ہوتی ہے۔

یہ تمام نکات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ قربانی کرنے والے کے لیے ان پابندیوں کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے، اور اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ ویسے ہی عمل کریں جیسے کہ دوسرے لوگ کرتے ہیں۔
اور اللہ بہتر جانتا ہے

آپ کی طرف سے پیش کیے گئے نکات پر تفصیل سے بات کی گئی ہے

مشابہت حجاج

احناف نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر منع کا مقصد حاجی کی مشابہت ہے، تو پھر

 قربانی کرنے والے کے لیے بھی دیگر ممنوعات، جیسے کہ جماع اور مخیط لباس (چوکا کپڑا) پہننا، بھی ممنوع ہونا چاہیے۔ تو پھر صرف حلق اور ناخن کاٹنے پر پابندی کیوں؟

حاجی کی صورت حال: اگر قربانی کرنے والے کو حاجی کی مانند سمجھا جائے، تو یہ بات بھی

یاد رکھنی چاہیے کہ حاجی کو صرف حالِ احرام میں حلق اور تقصیر سے روکا گیا ہے، نہ کہ ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں۔ تو قربانی کرنے والے کو اس سے زیادہ کی پابندی کیوں عائد کی جائے؟

اجحاف

 قربانی کرنے والے کو حلق اور ناخن کاٹنے سے روکنا ایک طرح کا اجحاف ہے۔ قربانی کرنے والا نیکی کر رہا ہے، جبکہ دوسروں کو اس پر کوئی پابندی نہیں، تو یہ بات شریعت میں درست نہیں۔

نظافت اور عید کی تیاری

 حلق اور ناخن کاٹنے پر پابندی، خاص طور پر اگر قربانی کے دن گیارہویں یا بارہویں تاریخ کو کی جائے تو یہ دشواری کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ اسلام کی صفائی کے احکام کے خلاف ہے اور عید کے دن غسل اور صفائی کے احکام کے بھی خلاف ہے، کیونکہ قربانی نماز کے بعد ہوتی ہے۔

یہ تمام نکات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ قربانی کرنے والے کے لیے ان پابندیوں کا کوئی ٹھوس جواز نہیں ہے، اور اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ ویسے ہی عمل کریں جیسے کہ دوسرے لوگ کرتے ہیں۔
اور اللہ بہتر جانتا ہے

حدود کے فتاویٰ حد ردت اور اس کا نفاذ