جواب:
پہلا: تراویح کی نماز کا اصل حکم یہ ہے کہ وہ سنت ہے، فرض نہیں ہے؛ تاہم، تراویح کی نماز اسلام کی علامتوں میں سے ہے، جیسے عید کی نماز، اذان، اور جماعت کی نماز۔ اس لیے اس کی اہمیت فرض کفائی کی سی ہے، یعنی یہ فرض نہیں، مگر کچھ افراد کا اس میں حصہ لینا ضروری ہے۔
تراویح کی نماز میں اس طرح کی اہمیت مردوں پر فرض ہے، اور خواتین پر استحباب (ترغیب) کے طور پر۔
دوسرا: ایک اور اصول جو شرع نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ عبادت گاہوں میں اذیت کو رفع کیا جائے، اور یہ نہ صرف جسمانی صفائی بلکہ معنوی صفائی کو بھی شامل کرتا ہے۔ اس میں خاص طور پر یہ شامل ہے کہ دوسرے لوگوں کی عبادت میں خلل نہ ڈالا جائے۔ عبد الرزاق کی مصنف میں حضرت ابو سعید کا حدیث ہے: « تم سب اپنے رب سے راز و نیاز کرتے ہو، تو تم میں سے کوئی دوسرے کو تکلیف نہ دے، اور نہ ہی تم میں سے کوئی دوسرے پر قراءت میں فوقیت حاصل کرے۔ »، امام باجی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "جب قرآن کی تلاوت میں آواز اٹھانا مصلین کو تکلیف دینے کے لیے منع ہے، تو پھر باتوں یا دوسرے چیزوں میں آواز بلند کرنا زیادہ ضروری ہے کہ روکا جائے۔"
تیسرا: جب فرض اور مستحب کے درمیان تصادم ہو، تو ہم عام پر خاص کو ترجیح دیتے ہیں، اور جو فرض فوری ہے، اسے تراویح جیسی مستحب عبادت پر مقدم رکھتے ہیں۔
ہم یہاں دو باتوں کے درمیان ہیں:
مسجد میں آداب کی حفاظت اور مصلین کو خلل سے بچانا؛
جماعت کے ساتھ نماز میں شریک ہونا اور اس عبادت کو ظاہر کرنا۔
ہم پہلے بات کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ عمومی طور پر ضروری اور فوری فرض ہے۔
اس لیے: اگر کسی عورت کو علم ہے کہ اس کے بچے مصلین کو تکلیف دیں گے اور وہ نماز میں شور کریں گے، تو اس کے لیے ان بچوں کو مسجد لے کر جانا جائز نہیں ہوگا۔ اور وہ اس گناہ کی مرتکب ہو گی، چاہے یہ گناہ بالواسطہ ہو، براہ راست نہ ہو۔ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر پر رکھے، یہاں تک کہ وہ مسجد کے آداب سیکھیں۔ یہ اصول ہر جماعت پر لاگو ہوتا ہے، سوائے عید کی نماز کے، کیونکہ اس میں ایک استثناء ہے۔