View Categories

سوال 175:کیا حکم ہے اس شخص کا جو نماز چھوڑ دیتا ہے سستی یا کاہلی کی وجہ سے، لیکن اس پر ایمان رکھتا ہے اور اسے انکار نہیں کرتا؟

جواب:
فقہاء کے درمیان نماز ترک کرنے کے معاملے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، خاص طور پر جب شخص نماز کو ترک کرتا ہے صرف سستی یا غفلت کی وجہ سے، اور وہ اس کے وجوب پر ایمان رکھتا ہے۔ ان آراء کا مختصر بیان یہ ہے:

پہلا:
جمهور فقہاء (احناف، مالکیہ، شافعیہ) کے مطابق سستی اور کاہلی کی وجہ سے نماز ترک کرنے والا کافر نہیں ہوتا۔ یہ رائے حنابلہ کے بعض علما کے ہاں بھی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ بڑی گناہ گار ہے۔ ان کا اختلاف اس بات پر ہے کہ اس پر کیا سزا عائد کی جائے:

بعض فقہاء نے کہا کہ جو شخص مکمل طور پر نماز ترک کرے، اس کو قتل کیا جائے (حد کے طور پر)۔

بعض نے کہا کہ وہ تعزیرًا قتل کیا جائے۔

احناف کا کہنا ہے کہ وہ کافر نہیں ہوتا اور نہ ہی قتل کیا جاتا ہے، بلکہ اس کو عذاب دیا جاتا ہے تاکہ وہ نماز پڑھنا شروع کرے۔

دوسرا:
حنابلہ اور بعض دیگر اہل علم نے کہا کہ جو شخص نماز کو سستی کی وجہ سے چھوڑے، وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس کا کفر ایمان سے باہر نکالنے والا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ کفر ایک سنگین مسئلہ ہے اور انہوں نے مختلف آراء پیش کیں:

بعض نے کہا کہ وہ شخص ایک نماز چھوڑنے پر ہی کافر ہو جاتا ہے۔

بعض نے کہا کہ اگر وہ تمام نمازیں ترک کرے تو وہ کافر ہے، لیکن اگر وہ کچھ نمازیں پڑھتا ہے اور کچھ چھوڑتا ہے تو وہ سست اور غافل ہے، لیکن کافر نہیں ہے۔

استدلال:
یہ رائے رکھنے والوں نے قرآن و حدیث سے استدلال کیا:

اللہ تعالیٰ کا فرمان: { پھر ان کے بعد ایک ایسی نسل آئی جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کا پیچھا کیا، پس عنقریب وہ سخت گمراہی کا سامنا کریں گے۔ } [مریم: 59]۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ جو نماز ترک کرے وہ کافر ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ نے ایسے لوگوں کو جہنم میں عذاب کا وعدہ دیا۔

تاہم یہ استدلال کمزور سمجھا گیا ہے کیونکہ ہر وہ شخص جو عذاب میں مبتلا ہو، ضروری نہیں کہ وہ کافر ہو۔ مثلاً غیبت، نمیمہ، سود، اور جھوٹ بولنے والے بھی عذاب میں مبتلا ہوں گے لیکن وہ کافر نہیں ہیں۔

حدیث:

بریدہ بن الحصیبؓ نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: «ہمارے اور ان کے درمیان عہد نماز ہے، جو اسے ترک کرے وہ کافر ہو جاتا ہے» [أحمد، أبو داود، الترمذي، النسائي، ابن ماجہ كى روايت ]۔

جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: «آدمی اور شرک و کفر کے درمیان نماز ترک کرنا ہے» [ مسلم كى روايت ]۔

تبصرہ:
یہ روایات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ ترک نماز کا معاملہ کفر سے متعلق ہے، لیکن ان روایات کا مفہوم واضح کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ان کو اصل متن کے تناظر میں سمجھیں۔ "ترک” یہاں "جحود” (یعنی انکار کرنا) سے مراد ہے، نہ کہ صرف عمل کا ترک۔ اس لیے ان روایات کا مقصد کسی شخص کے نماز کے فریضے کے انکار کی طرف اشارہ کرنا ہے، نہ کہ صرف کاہلی یا سستی کے باعث نماز چھوڑنے کو۔

دوسرا:
یہ بات معروف ہے کہ کفر میں سے ایک کفر وہ ہے جو انسان کو ملت سے خارج کر دیتا ہے اور دوسرا کفر نعمت ہے، اور بہت ساری نصوص میں یہی کفر مراد لیا گیا ہے، جیسے رسول اللہ
کا فرمان: « مسلمان کو گالی دینا فحش ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے » [متفق علیہ]۔ اور مسلمان آج بھی ایک دوسرے سے لڑتے ہیں جیسے صحابہ کے دور میں، لیکن کسی نے بھی ان لڑنے والوں کو کافر قرار نہیں دیا۔

اسی طرح رسول اللہ کا فرمان: « وه چیزیں ایسی ہیں جو لوگوں میں کفر کا سبب بنتی ہیں: نسب پر طعنہ زنی کرنا اور مردہ پر نوحہ کرنا۔” » [مسلم كى روايت ]۔ اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ جو شخص مردے پر نوحہ کرے وہ کافر ہو جاتا ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ جو شخص نماز چھوڑ دیتا ہے تهاون کی وجہ سے اور وہ اس کے فرض ہونے کو مانتا ہے، وہ کافر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک بڑے گناہ کا مرتکب ہے، اس کے لیے چند دلائل درج ذیل ہیں:

دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جو شخص لا الہ الا اللہ کا اقرا ر کرتا ہے، وہ مسلمان ہے، اور نماز چھوڑنے والا بھی ان میں شامل ہے۔
مثال کے طور پر:
« کسی مسلمان کا خون نہیں بہایا جا سکتا سوائے تین وجوہات کے » [متفق علیہ]، اور اس میں نماز کو ذکر نہیں کیا گیا۔

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان: { بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے، اور اس سے کم (گناہ) کو جسے چاہے گا، معاف کر دے گا } [نساء: 48]۔

اور رسول اللہ کا فرمان: « جو شخص یہ کہے: لا إله إلا الله، وہ جنت میں داخل ہوگا » [ مسلم كى روايت ]، « جو شخص مرے اور وہ یہ جانتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ » [ مسلم كى روايت ]، اور « میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کے رسول ہوں، جو شخص ان دونوں (کلمات) کے ساتھ اللہ سے ملاقات کرے گا، بغیر کسی شک کے، وہ جنت سے محروم نہیں ہوگا » [ مسلم كى روايت ]، « "اللہ نے اس شخص پر آگ (جہنم) کو حرام کر دیا ہے جو کہے: لا إله إلا الله۔ » [سب كا اجماع]۔

سبکی نے طبقات الشافعیہ میں امام الشافعی اور امام احمد بن حنبل کے درمیان نماز چھوڑنے والے کے حکم پر مناظرہ نقل کیا، جس میں امام الشافعی نے امام احمد سے پوچھا: «کیا تم کہتے ہو کہ وہ کافر ہے؟» امام احمد نے کہا: «ہاں»، امام الشافعی نے پھر کہا: «اگر وہ کافر ہے تو وہ کس طرح مسلمان ہو گا؟» امام احمد نے جواب دیا: «وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہے گا۔» امام الشافعی نے کہا: «اگر وہ یہ قول مستقل طور پر کہتا ہے تو وہ مسلمان ہے۔» پھر امام احمد خاموش ہو گئے۔صحیح بات یہ ہے کہ ہم نے جحود اور تهاون کے درمیان فرق کرنا چاہیے