ا
جواب:
اس بارے میں قرآن و حدیث سے واضح حکم موجود ہے:
قرآن میں آیا ہے: { یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کو ان کے اہل کے حوالے کرو } [نساء: 58]۔
نبی ﷺ نے فرمایا: "مومن کی روح اس کے قرض سے معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کا قرض ادا نہ ہو” [الترمذی كى روايت ]۔
اس کے علاوہ، نبی ﷺ نے قرض کے معاملے میں بہت سختی دکھائی ہے، حتیٰ کہ وہ ایسے شخص کی نماز جنازہ تک نہیں پڑھتے تھے جس پر قرض ہو۔
دین کی ادائیگی کے اصول
دین کی ادائیگی
: مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے تمام قرضوں کو وقت پر ادا کرے، چاہے وہ قرض کسی مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا، اور چاہے وہ قرض کسی فرد کا ہو یا کسی ادارے کا۔ اگر زندگی میں قرض ادا کرنا ممکن نہ ہو، تو وہ اپنی وراثت سے قرض کی ادائیگی کے لیے وصیت کر سکتا ہے، جیسے کہ بیوی کے لیے باقی مہر کی ادائیگی۔
اہل خانہ کی ذمہ داری:
اگر کسی شخص پر قرض ہو اور اس کی ادائیگی کے لیے اس کے پاس وسائل نہ ہوں، تو اس کے اہل خانہ پر قرض ادا کرنا مستحب ہے، خاص طور پر اگر کوئی قریبی رشتہ دار ہو۔ اگر رشتہ دار نہیں ہیں تو قرض کی ادائیگی ریاستی خزانے سے کی جا سکتی ہے۔ یہ حکم اس حدیث پر مبنی ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا: "مؤمنوں کی جانوں پر اُن کے دین کا بوجھ ہوتا ہے، جب تک کہ اُن کے قرض ادا نہ کر دیے جائیں۔"
قرض کی نوعیت
: قرض جو حلال ہو اور اس شخص نے اپنی ضرورت کے لیے
لیا ہو، اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ اگر یہ قرض کسی حرام عمل پر لیا گیا ہو، جیسے کہ سودی قرض، تو اس کی ادائیگی کی کوشش کرنا ضروری ہے، اور ممکنہ طور پر قرض دینے والے سے معاف کرانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
بنک قرض اور کریڈٹ: اگر کسی کے پاس بنک قرض یا کریڈٹ کا قرض ہو اور اس کے پاس اس کی ادائیگی کے لیے وسائل نہ ہوں، تو اس کے اہل خانہ کو کوشش کرنی چاہیے کہ قرض معاف کر دیا جائے یا کم کر دیا جائے، یا پھر قانونی طریقے سے قرض کے خلاف بات چیت کی جائے۔