View Categories

سوال 316:کیا مسجد میں قائم اسلامی ابتدائی اسکول کے لیے موسیقی کا مضمون پڑھانا جائز ہے؟ اگر فتویٰ جواز کے حق میں ہو، تو کون سے آلات موسیقی سکھائے جا سکتے ہیں؟

جواب:

پہلا نکتہ:
موسیقی اور گانے کے مسئلے پر فقہاء قدیم و جدید کے درمیان اختلاف رہا ہے، اور یہ اختلاف ہمیشہ جاری رہے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ:

موسیقی سے متعلق دلائل میں بظاہر تعارض پایا جاتا ہے۔

ماضی میں فقہ کی کتابوں میں اس مسئلے کو اکثر ایک خاص سماجی یا تاریخی پس منظر سے جوڑ کر دیکھا گیا، جہاں موسیقی کو عموماً فسق و فجور، شراب خانوں، اور دینی و اخلاقی ذمے داریوں سے غفلت کے ساتھ مربوط سمجھا جاتا تھا۔


دوسرا نکتہ:
تشریع کے دور میں جب موسیقی اور گانے کا چلن عام تھا، قرآن میں ایک بھی صریح حکم موجود نہیں جو موسیقی یا گانے کو حرام قرار دے۔ حالانکہ قرآن نے دیگر مسائل جیسے سود، شراب، اور جوئے کے بارے میں تفصیل سے حکم دیا ہے۔

فقہاء کی ایک جماعت نے موسیقی کو حرام قرار دینے کے لیے جن آیات سے استدلال کیا ہے، ان میں سے کوئی بھی حکم صریح نہیں بلکہ تأویل کی محتاج ہے۔ ان آیات کو موسیقی کی حرمت کے لیے مخصوص کرنا قرآن کے نظم اور آیت کے عمومی مفہوم کو کمزور کرتا ہے۔


دلائلِ حرمت کی تحقیق:1. آیت:

” اور بعض لوگ ایسے ہیں جو بے ہودہ باتیں خریدتے ہیں تاکہ اللہ کے راستے سے لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کریں…” (لقمان: 6)

اس آیت کو موسیقی کی حرمت کے لیے پیش کیا گیا، لیکن:

شانِ نزول:
یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی، جو حیرہ سے فارس کے قصے خرید کر لاتا اور قریش کو سناتا تھا تاکہ وہ قرآن کے سننے سے دور ہو جائیں۔

بغوی کی تفسیر:
نضر بن حارث قرآن کے مقابلے میں فارس کے رستم و اسفندیار کی کہانیاں سناتا اور لوگوں کو بہکاتا تھا۔

قرطبی کی تفسیر:
بعض روایات کے مطابق نضر گانے والی لونڈیاں خرید کر لاتا اور کہتا: "محمدؐ تمہیں نماز، روزہ اور جہاد کی دعوت دیتے ہیں، لیکن میں تمہیں کھانے، پینے اور گانے کی دعوت دیتا ہوں۔”

یہ آیت گانے یا موسیقی کے عام استعمال کو حرام کرنے کی بجائے، اس مخصوص سیاق کو بیان کرتی ہے جہاں گانا قرآن سے لوگوں کو بہکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔


موسیقی پڑھانے کا حکم:

اگر موسیقی کو اچھی اقدار، تعلیم، یا اخلاقی تربیت کے لیے استعمال کیا جائے، تو بعض علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے۔

آلات موسیقی:

صرف وہ آلات جو اخلاقی اور تعلیمی مقاصد کے تحت استعمال ہوں۔

وہ آلات جنہیں فسق و فجور یا برے کاموں سے وابستہ نہ کیا گیا ہو۔


نتیجہ:
اسلامی اسکول میں موسیقی کا مضمون پڑھانے کا جواز مقاصد پر منحصر ہے۔ اگر موسیقی کا استعمال طلبہ کی اخلاقی تربیت، تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ، یا دیگر مثبت مقاصد کے لیے ہو، اور اس میں برائی یا بے حیائی شامل نہ ہو، تو اسے سکھانا جائز ہو سکتا ہے۔

دوم:ً:

ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ سے منقول روایات میں "لَهْوَ الْحَدِيثِ” کو گانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تاہم، ان روایات کے اسناد میں ضعف موجود ہے، اور دیگر روایات میں اس کی تفسیر کو کسی بھی باطل بات پر محمول کیا گیا ہے۔

مزید برآں، محققین نے اس معاملے پر گہری تحقیق کی ہے، جیسے کہ استاد الجدیع نے اپنی کتاب "الموسيقى في ميزان الإسلام” میں 250 صفحات پر مشتمل حدیثی تجزیہ پیش کیا ہے، جو موسیقی کے موضوع پر ایک اہم مرجع ہے۔


سوم:ً:

اگر ہم تسلیم کر بھی لیں کہ "لَهْوَ الْحَدِيثِ” سے مراد گانا ہے، تو کیا آیت یہ کہتی ہے کہ ہر وہ شخص جو گانے کا استعمال کرے، اسے عذاب ہوگا؟ یا یہ آیت ان لوگوں کے لیے ہے جو گانے کو لوگوں کو اللہ کے راستے سے بہکانے اور استہزاء کے لیے استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ نضر بن حارث کرتا تھا؟

لہٰذا:

اگر گانے یا کسی بھی عمل کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا یا دین کا مذاق اڑانا ہو، تو وہ حرام ہوگا، چاہے وہ گانا ہو، شعر، کھیل، یا کوئی اور چیز۔

لیکن اگر اس کا مقصد تفریح، خوشی، یا دیگر جائز امور ہوں، تو وہ اپنے اصل حکم یعنی اباحت پر برقرار رہتا ہے۔


چوتهاً:

فرض کریں کہ "لَهْوَ الْحَدِيثِ” کا مطلب گانا اور موسیقی ہے، اور یہ مطلقاً حرام ہے۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ نبی کریم نے موسیقی کو کیسے سنا اور مختلف مواقع پر اسے جائز قرار دیا؟ چند مثالیں:

عید کے دن:
دو لونڈیاں نبی
کے سامنے دف بجا رہی تھیں اور گیت گا رہی تھیں۔

حبشیوں کا رقص:
مسجد نبوی میں حبشی صحابہ نے دف اور گانے کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا۔

نذر پوری کرنا:
ایک عورت نے نذر مانی تھی کہ اگر نبی
فتح کے ساتھ واپس لوٹے تو وہ دف بجائے گی اور گائے گی، اور نبی نے اسے منع نہیں فرمایا۔

چرواہا اور نَے:
ایک چرواہا نَے بجا رہا تھا، اور نبی
نے اسے منع نہیں فرمایا۔

سفر میں حدی خوانی:
صحابہ سفر میں گاتے اور حدی خوانی کرتے تھے، اور نبی
نے اس کو قبول فرمایا۔

شادیاں اور خوشی کے مواقع:
نبی
نے انصار کی خوشی کے موقع پر موسیقی کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔

سوال: کیا نبی کریم نے ان مواقع پر "لَهْوَ الْحَدِيثِکا ارتکاب کیا؟ یقیناً نہیں!


شریعت میں حرام چیز کا حکم:

حرام چیز ہر وقت حرام رہتی ہے، جب تک کہ کوئی شدید ضرورت پیش نہ آجائے، اور موسیقی کے ان مواقع پر کوئی ایسی ضرورت نہیں تھی جو حرام کو جائز بناتی۔


آیت کا مفہوم:

یہ آیت گانے اور موسیقی کی حرمت پر صریح دلیل نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے خاص ہے جو گانے یا دیگر چیزوں کو دین کے راستے سے بہکانے اور مذاق اڑانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔


دوسری دلیل:

بعض مفسرین نے حرمت کے لیے سورہ القصص (28:55) اور سورہ فرقان (25:72) کی آیات کو پیش کیا، جن میں لغو سے اجتناب کا ذکر ہے۔

لغو کا مطلب:

باطل باتیں: جیسے جھوٹ اور فحش کلامی۔

غیر ارادی قسم: جیسے ایسی قسم جو دل سے ارادہ کے بغیر ہو۔

بے فائدہ اور بے معنی بات: جیسے فضول کلام۔

نکتہ:
قرآن و سنت میں کہیں بھی لغو کا مطلب گانا یا موسیقی نہیں آیا۔

مثالیں:

سورہ فصلت (41:26): "غَوْا فِيهِ” کا مطلب گانا نہیں بلکہ شور مچانا ہے۔

جمعہ کے دن خطبے کے دوران لغو سے منع کرنے والی حدیث کا مطلب غیر ضروری باتیں ہیں، نہ کہ گانا۔


نتیجہ:

موسیقی اور گانے کے حوالے سے قرآن کی ان آیات میں کوئی واضح دلیل نہیں ملتی جو اس کی حرمت کو ثابت کرے۔ اس مسئلے کو سیاق و سباق اور مقاصدِ شریعت کے مطابق سمجھنا چاہیے

اہلِ لغت کا کہنا ہے: لغو کا اصل معنی آواز ہے، خواہ اس کا کوئی مطلب ہو یا نہ ہو۔ بعد میں ہر نسل کی گفتگو کو "زبان” کہا جانے لگا، اور اس کی اصل "لغوة” ہے۔ پھر پرندے کی آواز کو "لغو الطائر” کہا گیا۔ چونکہ وہ آواز بےمعنی ہوتی ہے، اس کو ہر اس چیز کی اصل مان لیا گیا جو بےمعنی ہو۔ اس لیے کہا جاتا ہے: فلاں شخص نے لغو کیا یعنی بےمعنی بات کی۔ پھر گرائی ہوئی یا منسوخ کی گئی چیز کو "لغو” کہا گیا کیونکہ وہ بےمعنی چیز کے مشابہ ہوتی ہے۔ مزید کہا جاتا ہے: "میں نے کسی چیز کو لغو کیا” یعنی اسے باطل یا ساقط کر دیا۔ اسی طرح باطل کو بھی "لغو” کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ گرائی گئی چیز کی مانند ہوتا ہے، اور باطل حق کے ساتھ برقرار نہیں رہتا۔ فحش کلام کو بھی "لغو” کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ بےکار، ساقط اور نظرانداز کی جانے والی بات ہوتی ہے۔

جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ گانا "لغو” ہے، تو یہ باطل بات ہے جس کے لیے دلیل درکار ہے۔ کیا نبی لغو کو سنتے تھے؟!


محرمین کا استدلال
3- محرمین نے اس آیتِ مبارکہ سے بھی استدلال کیا ہے:
{وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ} (الإسراء: 64)
کہ یہاں "صوت” سے مراد گانا ہے۔ یہ استدلال بھی نظم اور معنی دونوں لحاظ سے کمزور ہے:

نظم کی دلیل:
کیونکہ یہ فعل شیطان کا ہے، اور آواز (صوتک) بھی اسی کی طرف منسوب ہے۔ اگر گانے کو مطلقاً مراد لینا مقصود ہوتا، تو یوں کہا جاتا: "بالصوت” یا "بالغناء”۔ لیکن یہ کہنا کہ "یہاں گانے سے مراد مغنی کا گانا ہے”، یہ نظم کے لحاظ سے کمزور ہے۔
لہٰذا اکثر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ "صوتِ شیطان” سے مراد اس کی وسوسہ اندازی اور برائی کی طرف بلانا ہے۔ ابن عباسؓ اور قتادہؒ نے فرمایا: "اس سے مراد اللہ کی معصیت کی طرف بلانا ہے، اور ہر وہ شخص جو اللہ کی معصیت کی طرف بلائے، وہ ابلیس کا سپاہی ہے۔” (تفسیر بغوی)

معنی کی دلیل:
یہاں استعمال ہونے والے تمام الفاظ مجازی طور پر استعمال ہوئے ہیں نہ کہ حقیقی طور پر۔ شیطان کے پاس نہ گھوڑے ہیں، نہ پاؤں، اور نہ ہی وہ حقیقتاً انسان کے مال و اولاد میں شریک ہوتا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اپنی وسوسہ اندازی کے ذریعے ان پر قابو پاؤ اور اپنی طاقت اور حربے استعمال کرو۔
حقیقت یہ ہے کہ شیطان کے افعال کو محسوساتی معانی (مثلاً گانے) پر محمول کرنا بعض لوگوں کو ایسے تفاسیر قبول کرنے پر آمادہ کرتا ہے جن میں کہا گیا کہ آیت {وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ} کا مطلب یہ ہے کہ شیطان مرد کے ذکر پر بیٹھ جاتا ہے، اور اگر وہ "بسم اللہ” نہ کہے، تو شیطان اس کی بیوی کے ساتھ عملِ مباشرت میں شریک ہوتا ہے اور اس کے رحم میں نطفہ داخل کرتا ہے۔

بعض احادیث میں آیا ہے:
"تم میں مغربین موجود ہیں۔” پوچھا گیا: مغربین کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: "وہ لوگ جن میں جن شریک ہوتے ہیں۔” (تفسیر قرطبی و بغوی)

ایک روایت کے مطابق ایک شخص نے ابن عباسؓ سے کہا: "میری بیوی نے بیدار ہونے پر اپنے رحم میں آگ کا شعلہ پایا۔” انہوں نے فرمایا: "یہ جن کی وطی (ہم بستری) کا اثر ہے۔” (تفسیر بغوی)

اس قسم کی بےبنیاد باتیں، جو حقیقی طور پر وقوع پذیر نہیں ہوتیں، قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اگر ان باتوں کو سچ مان لیا جائے تو تمام انسانیت، جو جماع کے وقت "بسم اللہ” نہیں کہتی، جنات اور شیاطین کی اولاد قرار دی جائے گی، اور انسانیت کو اولادِ آدم کہنا مشکل ہو جائے گا۔


آیتِ سُمود کا استدلال
محرمین نے سورہ نجم کی اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے:
{وَأَنتُمْ سَامِدُونَ} (نجم: 61)
کہ "سمود” کے ایک عربی لہجے میں معنی "گانا” کے ہیں۔

یہ استدلال بھی درج ذیل وجوہات کی بنا پر کمزور ہے:

پہلی وجہ:
"سمود” کا لغوی معنی لہو اور غفلت ہے۔ یعنی "تم ان کاموں میں مشغول ہو جو تم سے مطلوب نہیں ہیں۔” یہ اہلِ لغت کی رائے ہے۔ لہذا ایک نادر اور غیرمعروف لہجے کی بنیاد پر استدلال کرنا درست نہیں۔

دوسری وجہ:
اگر مان بھی لیا جائے کہ "سمود” کا مطلب "گانا” ہے، تو بھی آیت میں کسی حرمت کی دلیل نہیں ملتی۔ زیادہ سے زیادہ آیت میں ان کے حال کو بیان کیا گیا ہے، کہ وہ قیامت کے دن سے غافل ہو کر دنیا کے مشاغل میں مصروف ہیں۔ اور دنیا کے مشاغل میں جائز اور ممنوع دونوں چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ آیت میں ان سے مطالبہ یہ کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے لیے سجدہ کریں۔

سوم::
جو شخص "سمود” (جسے گانا سمجھا جاتا ہے) کو حرام قرار دیتا ہے، اس پر لازم آتا ہے کہ وہ ہنسی اور تکبر کو بھی حرام سمجھے، کیونکہ یہ دونوں بھی اس آیت میں مذکور ہیں:
{فَإِذَا جَاءُوا لِيَسْتَجْوِزُوا فِي غَفْلَتٍ فِي تَمَتُّعٍ بَعِيدٍ وَسَامِدُونَ} (النجم: 59-61)۔
ان تمام افعال کا حکم ایک جیسا ہے، تو کیا کوئی عقل مند یہ کہے گا کہ ہنسی اس آیت کی روشنی میں حرام ہے؟ اگر کوئی کہے کہ ہنسی حرام نہیں ہے، تو پھر وہ کیسے باقی چیزوں کو حرام قرار دے سکتا ہے جن کا ذکر یہاں کیا گیا ہے؟

خلاصہ:
یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو قدیم و جدید دونوں دوروں میں عام ہے، بلکہ یہ شراب پینے جیسے دیگر کاموں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جن پر کوئی ایک صریح آیت نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ نے شراب، جوا، بتوں، تیر وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے، ساتھ ہی حرام کھانے جیسے مردار اور خون کا ذکر کیا ہے، جن سے انسان نفرت کرتا ہے اور تقریباً کوئی بھی ان کو نہیں کھاتا۔ لیکن جب ہم گانے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس بارے میں کوئی واضح آیت نہیں ہے جو کہے کہ گانا حرام ہے یا "گاؤ مت”۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {
اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے۔ } (انعام: 119)۔


سنت میں گانے کے بارے میں آنے والی روایات:
پہلا: وہ حدیثیں جو گانے اور موسیقی کے بارے میں صریحاً حرام ہونے کی بات کرتی ہیں، لیکن ان کی سند کمزور ہے اور روایت میں ضعف ہے، اور یہ سب سے زیادہ ہیں۔
دوسرا: وہ حدیثیں جو سند کے لحاظ سے صحیح ہیں، لیکن ان میں گانے کے حرام ہونے کی صراحت نہیں ہے، جیسے حدیث: « وہ حرام اور ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال سمجھتے ہیں »۔
تیسرا: وہ صحیح حدیثیں جو گانے اور موسیقی کے جواز کو ظاہر کرتی ہیں، جیسے وہ حدیثیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا تھا۔
اور کوئی صحیح حدیث نہیں ہے جو کہے: "گاؤ مت”، یا "گانا تم پر حرام ہے”۔ اور جو شخص ایسی صحیح حدیث کا ذکر کرے، وہ اسے پیش کرے۔


دوسری بات:
حدیث « میرے امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو ریشم، شراب، اور موسیقی کو حلال سمجھیں گے
۔ » جو بخاری اور دیگر کتابوں میں آئی ہے، کیا یہ حدیث موسیقی کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے؟

میں کہتا ہوں:
یہ حدیث نہ تو لفظاً نہ ہی معنی کے لحاظ سے موسیقی کو حرام ثابت کرتی ہے، اس کی چند وجوہات ہیں:

خبر اور حکم میں فرق:
یہ ایک خبر ہے، نہ کہ حکم۔ خبریں کسی شرعی حکم پر استوار نہیں ہوتیں، یہ محض کسی واقعے کی اطلاع ہوتی ہیں، جیسے قیامت کی چھوٹی اور بڑی علامات، جیسے بڑی لڑائی وغیرہ، یہ حدیثیں کوئی حکم نہیں دیتیں کہ ہمیں روم سے لڑنا فرض ہے، بلکہ یہ صرف ایک اطلاع ہوتی ہے۔

مذکورہ اشیاء میں فرق:
اگر ہم بخاری کی حدیث میں ذکر کردہ اشیاء کو دیکھیں تو ان میں سے کچھ چیزیں حرام ہیں جیسے زنا اور شراب، جبکہ کچھ چیزیں کچھ افراد کے لیے حلال اور کچھ کے لیے حرام ہیں، جیسے کہ حریر ( ریشم)۔ اگر مقصد تمام اشیاء کو حرام قرار دینا ہوتا تو حریر کو تمام امت کے لیے حرام قرار دیا جاتا، لیکن یہ معلوم ہے کہ ریشم خواتین کے لیے حرام نہیں، اور بچوں پر بھی اس کا کوئی حکم نہیں۔ تو کیا کوئی یہ کہے گا کہ اس حدیث کو گانے کے حرام ہونے پر دلالت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے وہ اسے ریشم کے حرام ہونے پر استدلال کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟

"يَسْتَحِلُّونَ” کا مفہوم:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ "يَسْتَحِلُّونَ” سے مراد یہ ہے کہ وہ ان اشیاء کو حرام سمجھ کر پھر ان کو حلال سمجھنے لگے ہیں، اور اس وجہ سے ان اشیاء کو حرام قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ تفسیر مکمل طور پر صحیح نہیں ہے۔ لفظ "استحل” کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ کسی حرام چیز کو حلال سمجھنا، بلکہ اس کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک جائز چیز کو بغیر کسی خوف کے کرنا، جیسے حدیث میں ہے کہ: «وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ» یعنی نکاح کے ذریعے حلال قرار دیا گیا تھا جو کہ پہلے ممنوع تھا۔


اس تفصیل کے ساتھ یہ ثابت ہوتا ہے کہ گانے اور موسیقی کو حرام قرار دینے کے لیے کوئی صریح دلیل موجود نہیں ہے، اور اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

پہلا نکتہ: "يَسْتَحِلُّونَ” کا مفہوم:
"يَسْتَحِلُّونَ” کا مفہوم صرف اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ کوئی چیز حرام ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے اس لیے حلال سمجھتے ہیں کہ شریعت نے اس میں اجازت دی ہے۔ اسی طرح جیسے "حریر” کے بارے میں کہا گیا کہ وہ حلال ہے کیونکہ شریعت نے اجازت دی ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص گانے کو حلال سمجھتا ہے تو یہ اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ وہ حرام ہے، بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ شریعت نے اس میں اجازت دی ہے۔
اس لیے، "يَسْتَحِلُّونَ” خود بذات خود کسی چیز کے حرام ہونے کی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کے حرام ہونے کے لیے ہمیں کوئی خارجی دلیل کی ضرورت ہے۔

دوسرا نکتہ: دلالتِ اقتران:
فقہاء نے دلالتِ اقتران پر مختلف آراء پیش کی ہیں:

پہلا قول:
کچھ علماء جیسے امام ابو یوسف (احناف)، امام المزنی (شافعیہ)، امام الباجی (مالکیہ)، اور امام ابو یعلی (حنابلہ) کا کہنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی اشیاء کو جمع کر کے ایک ہی حکم دیتا ہے، تو ان اشیاء کا حکم بھی یکساں ہوتا ہے۔

دوسرا قول:
بیشتر علماء نے اس کی تردید کی ہے، اور ان کے مطابق، لفظی اقتران کسی حکم کے اقتران کی دلیل نہیں ہوتا۔ اس لیے، اگر گانے اور شراب کو ایک ساتھ ذکر کیا جائے، تو یہ لازمی طور پر یہ نہیں کہے گا کہ گانا بھی حرام ہے۔

مثالیں جن سے دلالتِ اقتران کی کمزوری ثابت ہوتی ہے:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: { اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو، اگر تمہیں سفر کے دوران رکاوٹ پیش آجائے تو جو قربانی میسر ہو، اس کو ذبح کر دو اور جب تک تمہارا قربانی کا جانور قربان ہونے تک اپنی سر اور پاؤں کے بال نہ منڈواؤ اور اپنی حالت کو نہ بہتر کرو۔” } (بقرة: 196)۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عمراں حج کی طرح فرض ہوجاتی ہے کیونکہ ان دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے؟ (حالانکہ عمرة سنت ہے۔)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: { اور وہ جو گھوڑے، گدھے اور اونٹ پیدا کرتا ہے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور تمہارے لیے زینت بنائیں، اور وہ جو تمہیں جانوروں میں سے اور کچھ اور بھی پیدا کرتا ہے جسے تم کھاتے ہو۔ } (نحل: 8)۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ گھوڑے، خچچر اور گھوڑے کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے، اس لیے گھوڑے کا گوشت حرام ہو گا؟ (حالانکہ مروجہ رائے کے مطابق گھوڑے کا گوشت جائز ہے اور حدیث میں اس کی اجازت ہے۔)

بخاری اور مسلم میں ابی ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول نے فرمایا: « پانچ چیزیں فطرت کا حصہ ہیں: ختنہ کرنا، شرمگاہ کے بال صاف کرنا، بغل کے بال اکھاڑنا، ناخن ترشوانا، اور داڑھی کے بال چھوٹے کرنا »۔ کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پانچ چیزوں کو برابر درجہ دیا جائے گا؟ حالانکہ یہ عمل ایک دوسرے سے مختلف ہیں، کچھ واجب ہیں اور کچھ مستحب۔

ایک اور حدیث ابن عمر سے آئی ہے جس میں رسول نے فرمایا: « جب تم سودی کاروبار (عیِّنة) کرنے لگو، اور گائے کے دم (یعنی تجارت کے محض دنیاوی فائدے) کو اپنا مقصد بناؤ، اور کھیتی کی دنیا میں مگن ہو جاؤ، اور جہاد کو چھوڑ دو، تو اللہ تم پر ایک ذلت مسلط کر دے گا جسے وہ اس وقت تک دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ آ جاؤ۔” »۔ یہاں پر بھی گناہ اور جواز دونوں کا ذکر ہوا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کھیتی کرتے ہیں وہ ذلت میں مبتلا ہوں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہاں رسول ان لوگوں کو ملامت کر رہے ہیں جو حرام اور حلال کو ملا کر کرتے ہیں۔

قرآن اور حدیث میں اقتران کا مفہوم: اللہ تعالیٰ نے { بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کے لیے سب سے بہتر بدلہ ہے، اور ان کے لیے مزید اضافہ ہے انعام: 68) میں مجلس اور گناہ کے درمیان اقتران کیا ہے۔ یہاں پر بھی گناہ کا تذکرہ صرف اس صورت میں ہے جب وہ دونوں چیزیں ایک ساتھ ہوں، نہ کہ ایک چیز کی وجہ سے دوسرے پر حکم لگانا۔

خلاصہ:
الفقہاء کا عمومی اصول یہ ہے کہ تمام چیزیں بطورِ اصل جائز اور حلال ہوتی ہیں جب تک کہ کوئی صریح دلیل ان کے حرام ہونے کی طرف اشارہ نہ کرے۔ اس لیے، گانے یا موسیقی کے بارے میں کوئی قطعی حرام ہونے والی دلیل نہیں ہے، اور اگر وہ رسول اللہ
کی زندگی میں ہو تو اس سے اس کے جواز کا پتہ چلتا ہے۔

آلات موسیقی:
عرب میں مختلف قسم کی موسیقی اور آلات تھے جیسے عود اور رباب۔ عود کا استعمال یہودیوں کے درمیان تھا، اور کہا جاتا ہے کہ حضرت داود علیہ السلام اس پر ساز بجاتے تھے۔

آلات النفخ:

الناي:

 اور اسے اليراع بھی کہا جاتا ہے، عربوں نے اسے کثرت سے استعمال کیا ہے، اور یہودیوں نے بھی اس کا استعمال کیا۔

المزمار: اور اس سے مراد بھی بعض اوقات ناے ہی ہو سکتی ہے، یہ لفظ عربوں اور

 یہودیوں میں مشہور تھا۔

البوق:

 یہودیوں کے درمیان استعمال ہوتا تھا۔

آلات الضرب:

الدف:

جسے طبل اور غربال بھی کہا جاتا ہے، اور یہ دف صنوج کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور بغیر صنوج کے بھی۔

الكَبَر:

 یہ وہ طبل ہے جس کے دونوں طرف سے آواز آتی ہے۔

الصنوج: یہ نحاس سے بنائی جاتی تھیں اور ان کی آواز کو ان کے ایک ساتھ بجانے سے

 نکالا جاتا تھا، اور یہ عربوں اور یہودیوں میں معروف تھیں۔

دوسرا نکته:

 ان آلات میں سے ہر ایک کے زیر اثر دوسری آلات بھی وقت کے ساتھ ساتھ وجود میں آئیں، اور جو شخص معازف کے جواز کا قائل ہے وہ آلات میں فرق نہیں کرتا، کیونکہ ان سب کا اصل حکم جائز ہے، جو زمانۂ نبوی میں معروف تھا اور جو بعد میں آیا۔ حکم آلات کی نوعیت نہیں بلکہ ان کے استعمال پر منحصر ہے۔ لہذا، مزمار اور سیکسوفون میں فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں میں نفخ کا عمل ہوتا ہے، اور عود اور کمان میں بھی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں میں تار ہوتے ہیں۔

تیسرا نکته:

نبی اکرم نے "المزمارکا لفظ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے بارے میں مشہور حدیث میں استعمال کیا۔ سوال یہ ہے: کیا نبی نے فرمایا: «لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِّنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ» (الشيخان كى روايت ) تو اس میں مدح تھی یا ذم؟

جواب: یقیناً یہ مدح کے طور پر تھا۔

سوال:

 کیا نبی کسی حرام چیز کی مثال مدح کے طور پر دے سکتے ہیں؟

اگر مزمار حرام ہوتا تو کیا نبی اسے مدح کے طور پر پیش کرتے؟ مثلاً، کیا کوئی نبی یہ کہہ سکتا تھا کہ "تم ہبل یا اللات کی طرح ہواور اس کا مقصد عظمت اور تکریم ہوتا؟ یا کوئی شخص انسان کو خنزیر سے تشبیہ دے سکتا تھا کیونکہ وہ زیادہ اولاد پیدا کرتا ہے؟

کسی کا یہ کہنا کہ ہم انسانوں کو جانوروں سے تشبیہ دیتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ فلان شخص شیر کی طرح ہے۔ مگر جواب یہ ہے کہ ہم انسانوں کو جانوروں سے کسی خاص صفت کی وجہ سے تشبیہ دیتے ہیں جو انسان اور جانور دونوں میں مشترک ہوتی ہے، اور یہ صفت بذات خود حلال ہوتی ہے۔ جیسے شیر کی قوت اور بہادری، اونٹ کی صبر اور طاقت، ہرن کی چستی اور خوبصورتی وغیرہ۔

اسی طرح، حضرت نبی کا حضرت ابو موسیٰ کو تشبیہ دینا کسی ایسی چیز کے ساتھ تھا جو بذات خود حلال ہو۔

یہ تشریح ہمیں اللہ کے فضل سے حاصل ہوئی، اور اللہ کا شکر اور احسان ہے۔

جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ چاروں فقہاء نے معازف (سازوں) کو حرام قرار دینے پر اتفاق کیا، ان سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ:

 اول:

 ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ مشہور چاروں مذاہب کے فقہاء کا اجتماع خود میں اجماع نہیں کہلاتا؛ کیونکہ بعض اوقات ان کے مخالفین ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اختلاف کو اہمیت دی جاتی ہے، اور ایسا ہو چکا ہے۔ یہاں فرق ہے کسی رائے پر اجتماع اور اس پر اجماع ہونے میں۔ ثانیاً: اگر دلیل کسی قول کے مخالف ہو تو چاروں مذاہب کے اجتماع کی مخالفت جائز ہے، اور ایسا ہو چکا ہے، میں اس کی مثالیں دوں گا: چاروں اماموں کا یہ کہنا تھا کہ سجدہ تلاوت کے لیے وہی شروط ہیں جو سجدہ نماز کے لیے ہیں، جیسے طہارت، قبلہ کی سمت اور مقام کی طہارت، جبکہ بخاری نے ابن عمر سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بغیر طہارت کے سجدہ کرتے تھے، اور ابن تیمیہ نے بغیر طہارت سجدہ کو درست قرار دیا، اور ان کے پیچھے شوکانی نے بھی یہی موقف اپنایا۔ – اگر کوئی شخص اذان فجر کے بعد رات کا گمان کرتے ہوئے کھا پی لے: چاروں مذاہب کے مطابق اس کا روزہ درست نہیں اور اسے قضا کرنا ہوگی، جبکہ مزنی اور ابن تیمیہ نے اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ اس کا روزہ صحیح ہے۔ – مدمقابل کے حصے کے ساتھ رھانات: چاروں فقہاء کا کہنا تھا کہ اگر مدمقابل کوئی عوض دے تو اس قسم کی مدمقابل کو حرام قرار دیا ہے، اور اس کے جواز کے لیے محلل (وہ شخص جو رھانات میں شریک ہوتا ہے مگر انعام میں حصہ نہیں لیتا) کی ضرورت تھی۔ ابن قیم نے مدمقابل کے حصے کے ساتھ رھانات کو جائز قرار دیا اور محلل کے شرط کو باطل سمجھا۔ – مختلعہ کا عدہ: چاروں مذاہب کا کہنا تھا کہ مختلعہ کا عدہ، مطلقہ کے عدہ کی طرح ہے، جبکہ اسحاق اور ابن تیمیہ نے کہا کہ اس کا عدہ صرف ایک حیض ہے۔ – تین طلاقیں ایک ہی لفظ میں: چاروں مذاہب کے مطابق ایک ہی لفظ میں تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں، لیکن بعض لوگوں نے ان سے اختلاف کیا اور کہا کہ صرف ایک طلاق واقع ہوگی، جن میں ابن تیمیہ، ابن قیم اور محمد بن وضاح شامل ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ یہ لغو ہے اور کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی، یہ قول ظاہرہ اور ہشام بن حکم کا ہے۔ – عصر سے اصل چیز کا بیچنا: چاروں مذاہب کے مطابق اصل چیز کو اس کے رس (عصیر) کے ساتھ بیچنا جائز نہیں، جیسے تل کو تیل کے ساتھ، یا انگور کو رس کے ساتھ بیچنا، کیونکہ جب اصل چیز کا رس نکالا جائے تو وہ کم قیمت ہوگا جس کے ساتھ وہ بیچا گیا۔ ابن تیمیہ نے اس کی اجازت دی۔ – سونے کی جواہرات کو غیر مصوغ کے ساتھ زائد قیمت پر بیچنا: چاروں ائمہ: ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد رحمہ اللہ کا متفقہ قول تھا کہ سونے کے جواہرات کو زائد قیمت پر بیچنا حرام ہے، اور اس کو سود سمجھا جاتا ہے، اور کئی علماء نے اس پر اجماع نقل کیا، جیسے ابن عبد البر، قاضی عیاض اور نووی۔ ابن تیمیہ اور ابن قیم نے اس کی اجازت دی اور کہا کہ اضافی قیمت مصنعت کے مقابلے میں ہے۔ میں ان مثالوں پر اکتفا کروں گا، اگر چاہوں تو درجنوں مسائل ذکر کر سکتا ہوں۔

تیسرا:

 جب ہم بزرگان علماء کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں جو مختلف مذاہب کے ہیں، تو ہمیں یہ ملتا ہے کہ ان کے بیانات میں گانے اور معازف (سازوں) کے حکم کے بارے میں مختلف انداز تھے اور ان میں حرام ہونے پر کوئی مکمل اتفاق نہیں تھا۔ یہاں کچھ اقتباسات ہیں جو مختلف مذاہب کی کتابوں اور ممتاز علماء سے آئی ہیں:

بدائع الصنائع میں سیدنا کاسانی نے ذکر کیا: (آلاتِ لہو جیسے بربط، طبل، مزمار، دف وغیرہ کا بیچنا امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے، لیکن ان کے نزدیک یہ مکروہ ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک ان چیزوں کا بیچنا درست نہیں کیونکہ یہ آلات تفریح کے لیے ہیں اور فسق و فساد کے لیے بنائی گئی ہیں، اس لیے یہ مال نہیں سمجھی جاتیں اور ان کا بیچنا جائز نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ان سے کسی اور مفاد کی غرض سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جیسے کہ انہیں اشیاء رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے، اس طرح ان کو مال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں کی رائے کہ یہ آلات تفریح اور فسق کے لیے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ یہ ان کی مالیت کو ختم نہیں کرتا جیسے گانے والی خواتین اور رقاصات کی طرح۔) اور وہ کہتے ہیں: (اگر کوئی شخص انہیں توڑ دے تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک وہ ضامن ہوگا، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک وہ ضامن نہیں ہوگا۔)

الذہبی نے ابن الماجشون کے بارے میں ذکر کیا: (وہ گانا سکھاتے اور قیاں رکھتے تھے) اور کہا: (وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے گانے سکھانے کا آغاز کیا، وہ اہل مروءت میں سے تھے۔)

یوسف بن یعقوب الماجشون جو کہ الزہری کے شاگرد تھے اور یحییٰ بن معین نے ان سے روایتیں سنی تھیں، انہوں نے کہا: (ہم ان کے پاس جاتے اور وہ ہمیں ایک گھر میں بتاتے اور دوسرے گھر میں ان کے ساتھ گانے والی خواتین سازوں کے ساتھ گاتی تھیں۔) اور الذہبی نے ابن معین کی یہ روایت پر تبصرہ کیا: (مدینے والے گانے میں رخصت دیتے ہیں، وہ اس بارے میں لچک رکھتے ہیں۔)

جب زریاب عبد الرحمن بن حکم کے دور میں اندلس منتقل ہوئے تو انہوں نے گانے اور موسیقی سکھانے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام "دار المدنيات” تھا، جو قرطبہ میں پہلا موسیقی معہد تھا، جو 825 عیسوی میں قائم ہوا، اور یہ ادارہ قرون تک جاری رہا جہاں اندلس کے فقیہان اور دیگر مشہور شخصیات بھی شامل ہوئے۔

مدینہ کے مشہور علماء میں سے امام عبد العزیز بن ابی سلیمہ تھے، جن کے بارے میں الخلیلی نے کہا: (وہ تسميع کو پسند کرتے اور عود کے بارے میں رخصت دیتے تھے۔)

عبد الملک بن عبد العزیز جو اپنے وقت کے فقیہ اور امام مالک کے شاگرد تھے، ابن عبد البر نے کہا: (وہ گانے سننے میں دلچسپی رکھتے تھے، سفر میں اور غیر سفر میں، اور احمد بن حنبل نے کہا: وہ ہمارے پاس آئے اور ان کے ساتھ گانے والا تھا۔)

ابراہیم بن سعد جو بڑے حفاظ میں سے تھے اور عبد الرحمن بن عوف کے پوتے تھے، الذہبی نے کہا: (ابراہیم گانے کی صنعت میں ماہر تھے۔) اور الخطيب نے ان کی ایک مشہور کہانی نقل کی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ قسم کھاتے تھے کہ کوئی حدیث نہیں سنائیں گے جب تک کہ وہ اس سے پہلے گانا نہ گائیں۔اس لیے ہمیں سوچ سمجھ کر اس معاملے پر غور کرنا چاہیے اور رائے دینے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں مختلف آراء کا جائزہ لے کر ان کی موازنہ کرنی چاہیے۔