View Categories

سوال382:کیا اس شخص کے لیے جو نذر مانے کہ وہ قربانی کرے، اس کے لیے اس قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے؟

جواب:

(ج): اصل جو ہم نذر کی قربانی میں فیصلے کے لیے اختیار کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر انسان نے کسی چیز کا نذر کیا تو وہ چیز اس کی ملکیت سے نکل جاتی ہے، اس لیے نذر کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے جس کے لیے نذر کی گئی تھی، جیسے اللہ تعالی کا فرمان ہے: {فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ إِنَّا نَسِينَاكُمْ} [الحج: 29]۔ پس جو شخص یہ نذر کرے کہ وہ فلاں غریب یا مسکین کے لیے بکری ذبح کرے گا، تو اس کا گوشت ان ہی لوگوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے، اور نذر کرنے والے کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس گوشت میں سے کچھ لے، نہ کھانے کے لیے اور نہ ہی اس کے دوسرے فوائد جیسے بکری کی کھال کو تکیہ کے طور پر یا اس کا اون استعمال کرنے کے لیے۔ بلکہ اس کی پوری چیز اللہ کے لیے نکالنی چاہیے، حتیٰ کہ جزار کی اجرت بھی نذر کرنے والے کے لیے جائز نہیں، جیسا کہ علما نے صراحت کی ہے۔

نذر کی دو قسمیں ہیں:

  1. مخصوص نذر: جیسے کہ ناذر کہے کہ اگر اللہ مجھے یہ اور یہ دے دے تو میں غریبوں اور مسکینوں کے لیے یہ قربانی کروں گا۔ اس قسم کی نذر میں گوشت کا کھانا یا کسی بھی قسم کا فائدہ حاصل کرنا تمام اہل علم کے مطابق جائز نہیں۔
  2. عام نذر: جیسے کہ ناذر یہ کہے کہ اگر اللہ نے مجھے یہ دیا تو میں اللہ کے لیے قربانی کروں گا لیکن اس قربانی کا مقصد یا مصرف مخصوص نہیں ہے جیسے کہ فقراء وغیرہ۔ اس قسم میں بھی اکثر علمائے کرام جیسے کہ احناف، شافعیہ، اور حنبلیہ کے مطابق اس قربانی کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے، تاہم مالکیہ کے مطابق یہ جائز ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے ہاں نذر کا مصرف مخصوص نہ ہونے کی وجہ سے کھانا جائز ہے۔

البتہ، بہتر یہ ہے کہ نذر کی قربانی کا گوشت نہ کھایا جائے کیونکہ یہ صدقہ کی طرح ہے، اور صدقہ دینے والے کے لیے اپنی صدقہ سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے ذریعے وہ گویا اپنی ہی ذات کے لیے دے رہا ہوتا ہے۔