View Categories

سوال387:متوفی کے لیے قرآن پڑھنے کا كيا حکم ؟

جواب: جو چیزیں میت کے بعد اس تک پہنچ سکتی ہیں، ان میں کچھ پر فقہاء کا اتفاق ہے اور کچھ پر اختلاف:

پہلا: جس پر فقہاء کا اتفاق ہے: فقہاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دعا کا ثواب، مالی عبادات جیسے صدقہ، زکات، قرض کی ادائیگی اور وقف وغیرہ میت تک پہنچتا ہے۔

دوسرا: جس پر فقہاء کا اختلاف ہے: فقہاء نے جسمانی عبادات جیسے نماز، روزہ اور قرآن کی تلاوت کا ثواب میت تک پہنچنے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اور اسی طرح قرآن کی تلاوت کا ثواب میت تک پہنچنے پر بھی مختلف آراء ہیں۔

علماء کی آراء میں اختلافات:

  1. حنفیہ: حنفیہ کا کہنا ہے کہ میت کو تلاوت کا ثواب پہنچتا ہے چاہے وہ کسی کے بیٹے کی طرف سے ہو یا کسی اور کی طرف سے۔ ان کے مطابق جو شخص کسی چیز کا مالک ہو، وہ اسے کسی کو تحفے کے طور پر دے سکتا ہے، اور قاری اس ثواب کا مالک ہوتا ہے جسے وہ میت کے لیے ہبہ کر سکتا ہے، جب تک کہ وہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے قبول نہ کرے، جیسے کہ کافر ہونا۔ ابن عابدین نے ان سے نقل کیا ہے کہ سورہ یٰسین پڑھنا میت کے لیے بہتر ہے، کیونکہ اس کے بارے میں آیا ہے کہ جو شخص قبرستان میں جا کر سورہ یٰسین پڑھے، اللہ اس سے اہل قبر کی تکالیف کم کر دیتا ہے۔
  2. مالکیہ: مالکیہ میں تین روایات ہیں، سب سے زیادہ مشہور وہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ثواب میت تک پہنچتا ہے۔ ابن رشد نے اپنی فتویٰ میں کہا کہ اگر کوئی شخص قرآن پڑھے اور اس کا ثواب میت کو ہبہ کرے، تو اس سے میت کو نفع پہنچتا ہے۔
  3. شافعیہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ شافعیہ تلاوت کو میت تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتے، لیکن زیادہ تر شافعیہ کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے۔ نووی نے اس بات کا ذکر کیا کہ بعض شافعیہ کے مطابق تلاوت کا ثواب میت تک پہنچتا ہے اگر اسے نیت کے ساتھ پڑھا جائے۔
  4. حنابلہ: حنابلہ کا موقف بہت وسیع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر قسم کی نیک عمل کا ثواب میت کو پہنچتا ہے، چاہے وہ نماز ہو، روزہ ہو، یا قرآن کی تلاوت ہو۔ ابن قدامہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص کوئی نیک عمل کرے اور اس کا ثواب میت کو دے، تو اس سے میت کو نفع پہنچتا ہے۔

مختلف حالات اور ان پر اختلافات:

  1. پہلا حال: اگر قاری قرآن پڑھنے کے بعد اللہ سے دعا کرے کہ وہ اس کا ثواب میت کو پہنچا دے، تو اس سے میت کو نفع پہنچتا ہے، کیونکہ دعا کا جواز متفق علیہ ہے۔
  2. دوسرا حال: اگر قاری دعائے ثواب کرتا ہے اور کہتا ہے "اللہ تعالیٰ یہ ثواب فلان کو پہنچا دے”، تو ابن صلاح نے کہا کہ اس سے میت کو نفع پہنچے گا کیونکہ دعا میں یہ نیت کی جاتی ہے کہ اس عمل کا ثواب میت کو پہنچے۔
  3. تیسرا حال: اگر قاری کی نیت شروع میں ہی یہ ہو کہ اس کا ثواب میت کو جائے، تو یہ بھی جائز ہے۔ ابن رشد نے کہا کہ اگر قاری نے شروع میں نیت کی اور اس کا ثواب میت کو ہبہ کیا، تو اس سے میت کو نفع پہنچے گا۔

اختلافات کا خلاصہ: اس اختلاف کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر قرآن بغیر کسی معاوضے کے پڑھا جائے، تو اس پر زیادہ تر اختلاف نہیں ہے، لیکن اگر کسی معاوضے کے طور پر پڑھا جائے، تو زیادہ تر علماء کا کہنا ہے کہ میت کو اس کا نفع نہیں پہنچتا۔