View Categories

سوال:309:نوزائیدہ کے دائیں کان میں اذان دینا اور بائیں کان میں اقامت کہنے کا کیا حکم ہے؟ کچھ مشائخ کا کہنا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی روایت ضعیف ہے۔

جواب:
جہاں تک ضعیف سند والی بعض روایات کے ذریعے فضائل اور آداب کے باب میں عمل کرنے کا تعلق ہے، میں یہ کہوں گا:

پہلا: عمل کرنے یا نہ کرنے کا اصل دارومدار صرف حدیث کی صحت پر نہیں ہوتا۔ کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ حدیث صحیح ہو، مگر اس پر عمل نہ کیا جائے، جیسے:

نسخ (یعنی کوئی دوسری حکم آنا جس کی وجہ سے پہلے والی حدیث منسوخ ہو جائے)۔

صحیح تر روایات کا آنا۔

کسی حدیث کا عوام میں مشہور نہ ہونا یا اہل علم میں مشہوری کی کمی۔

ایسی مثالیں فقہ کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ اس لیے جو اہمیت دی جانی چاہیے وہ فقہ حدیث کو ہے، یعنی حدیث کے مضمون کو سمجھنا اور اس کے سیاق و سباق کو دیکھنا۔ سند اس کا صرف ایک حصہ ہے، اور ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے کہ صرف سند کو مقدم کریں اور اصل مضمون کو نظرانداز کریں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے (یعنی سندوں کو مقدس سمجھنا غلط ہے)۔

دوسرا: ہمیں ضعیف اور موضوع (جعلی) روایات کے درمیان فرق کرنا چاہیے، حالانکہ دونوں کو "متروک” (یعنی چھوڑ دی گئی) روایات میں شمار کیا جاتا ہے۔

ضعیف روایت: وہ حدیث ہے جس میں صحت کے لیے ضروری شرائط پوری نہیں ہوتیں، چاہے وہ سند میں کمزوری کی وجہ سے ہو یا متن (مواد) میں۔

ضعیف روایات میں وہ بھی شامل ہیں جو سند کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہوں اور وہ بھی جو متن کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہوں۔ ہر عنصر کی کمزوری کی شدت مختلف ہو سکتی ہے۔

جہاں تک سند کی کمزوری کا تعلق ہے، یہ عام طور پر متن کی کمزوری سے کم اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ سند صرف ایک وسیلہ ہے جبکہ متن اصل مقصد ہوتا ہے۔ اس لیے سند میں کمزوری پر غور کرنا اور متن میں کمزوری پر غور کرنا ایک جیسا نہیں ہوتا۔

ضعیف سند کی چار اقسام ہیں:

ضعف یسیر (ہلکی کمزوری): جب راوی کی حالت نرم یا کمزور ہو۔

خلاصہ:
نوزائیدہ کے دائیں کان میں اذان دینا اور بائیں کان میں اقامت کہنے کی روایت بعض روایات میں ضعیف ہو سکتی ہے، مگر اگر اس کا مفہوم صحیح ہے اور اس پر عمل میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

الضعف المتوسط: یہ وہ کمزوری ہے جس میں راوی سے کچھ غلطیاں واقع ہوتی ہیں، یا وہ شدید غلطی کرتا ہے۔

الضعف الشديد: یہ وہ کمزوری ہے جب راوی انتہائی ناقص یا مخلوط ہو۔

الموضوع یا المنكر: یہ وہ حالت ہے جب راوی جھوٹا ہو یا وہ موضوع (جعلی) روایات نقل کرنے کے لیے مشہور ہو۔

یہ چار قسمیں اگر ایک ہی معیار سے قبول اور رد کی جائیں تو یہ خطرناک ہو سکتی ہیں، کیونکہ یہ فقہی دلائل اور استدلال کے طریقوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقیہ کے پاس استدلال کے بہت وسیع وسائل اور ذرائع ہوتے ہیں، جو صرف ایک راوی کے ذاتی وسائل سے کہیں زیادہ ہیں۔ فقیہ کے کام کا فرق مفسر اور قاری کے درمیان فرق کی طرح ہے؛ مفسر کے پاس زبان، اصول اور علمِ آلہ جیسے ذرائع ہوتے ہیں، جبکہ قاری کے پاس صرف نقل اور تلقین کے ذرائع ہوتے ہیں۔

اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ موضوع (جعلی) روایت پر عمل کرنا جائز نہیں، لیکن ان تین قسموں میں اختلاف پایا جاتا ہے جنہیں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

علماء کا قول:

امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الأذكار” میں کہا:
"علماء محدثین، فقیہان اور دوسرے تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ فضائل، ترغیب و ترہیب کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز اور مستحب ہے، بشرطیکہ وہ
موضوع (جعلی) نہ ہو۔ لیکن جہاں تک حلال و حرام، نکاح، طلاق اور بیع جیسے احکام کا تعلق ہے، وہاں صرف صحیح یا حسن حدیث پر عمل کیا جائے گا، تاہم اگر کسی ضعیف حدیث میں کوئی احتیاطی بات ہو، جیسے بعض بیوع یا نکاحوں کی کراہت سے متعلق کوئی ضعیف حدیث ہو، تو اس پر عمل مستحب ہے، مگر ضروری نہیں۔"

ابو زکریا العنبری (جو امام الحاکم، ابن منده کے استاد اور اپنے زمانے کے بہترین حافظہ والے علماء میں سے تھے) نے کہا:
"جب کوئی حدیث ایسی آئے جس میں نہ حلال کو حرام کرنے کا حکم ہو، نہ حرام کو حلال کرنے کا، اور نہ کوئی حکم قائم کیا جائے، بلکہ وہ صرف ترغیب یا ترہیب، یا شدت و سہولت کے بارے میں ہو، تو اس حدیث میں موجود راویوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیا جائے گا اور ان پر زیادہ کڑی تنقید نہیں کی جائے گی۔”

خلاصہ:
ضعیف روایات کو فضائل اور ترغیب و ترہیب کے باب میں استعمال کرنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ موضوع نہ ہو، لیکن
حلال و حرام کے مسائل میں صرف صحیح یا حسن حدیث پر ہی عمل کیا جائے گا۔ ضعیف روایات پر عمل کرنے کا معاملہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی روایات ہیں اور ان کا اطلاق کس موضوع پر ہو رہا ہے۔

ابن أبي حاتم الرازي – جو کہ خود ایک مشہور اور معتبر محدث ہیں – نے اپنی کتاب میں روایت کرنے والے راویوں کے بارے میں کہا:
"ان میں سے بعض راوی صدوق (سچ بولنے والے)، ورع (پرہیزگار) اور مغفل (غافل) ہوتے ہیں، جن پر زیادہ تر وہم، خطا، سهو اور غلطی غالب ہوتی ہے۔ ایسے راویوں کی روایتوں پر فضائل، ترغیب و ترہیب، زہد اور آداب کے بارے میں لکھا جا سکتا ہے، لیکن ان کی روایات کو حلال و حرام میں حجت نہیں بنایا جا سکتا۔”

امام الحاکم نے اپنی سند کے ساتھ امام احمد بن حنبل کا قول نقل کیا:
"جب ہم حلال و حرام یا سنت کے بارے میں رسول اللہ
کی حدیث روایت کرتے ہیں تو ہم سختی سے اس کی تصدیق کرتے ہیں، لیکن جب ہم فضائل اعمال اور وہ حدیثیں جن میں کوئی حکم قائم نہیں کیا گیا ہوتا یا رفع و رد نہیں کیا گیا ہوتا، تو ہم ان کی اسناد میں تسہل (نرمی) برتتے ہیں۔"

علم الدين السخاوي نے ضعیف حدیث کے بارے میں کہا:
"یہ تسہل (نرمی) اور تشدید (سختی) — یعنی فضائل و زہد کی روایات میں ضعیف حدیث کو قبول کرنے میں نرمی اور حلال و حرام کے مسائل میں سختی — یہ بات ابن مہدی عبد الرحمن اور دیگر محدثین جیسے احمد بن حنبل، ابن معین، ابن مبارک، اور سفیان ثوری سے نقل کی گئی ہے۔ ابو احمد بن عدی اور الخطيب نے اپنی کتابوں میں اس موضوع پر ایک باب مخصوص کیا ہے۔”

ابن تیمیہ نے اپنی کتاب "الاقتضاء” میں کہا:
"اگر حدیث یہ نہ معلوم ہو کہ وہ جھوٹ ہے، تو اسے فضائل کے بارے میں روایت کرنا جائز سمجھا جاتا ہے۔”

عملی تطبیق:
جب ہم علماء کے عمل کو دیکھتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ انہوں نے ضعیف روایات کو روایت کیا، اور یہ ان کے لیے کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کہ وہ صحیح اور ضعیف روایات کے درمیان فرق کرتے۔ اس کا ایک مثال شیخ البانی کی "سلسلہ ضعیفہ” میں کی جانے والی تفریق ہے، جہاں انہوں نے ضعیف روایات کو ظاہر کیا اور ان کے بارے میں فیصلہ کیا۔

پھر بھی، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں صحیح اور ضعیف روایات کو ایک ساتھ ذکر کیا، جیسے:

امام احمد نے اپنی کتاب "المسند” میں۔

چھ سنن کتابیں (سنسنہ کتب) میں۔

امام بخاری نے اپنی کتاب "الأدب المفرد” میں۔

خلاصہ:
علماء کے نزدیک ضعیف حدیث کو فضائل اور زہد جیسے موضوعات پر روایت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ وہ موضوع (جعلی) نہ ہو، تاہم حلال و حرام کے مسائل میں صرف صحیح حدیث کو ہی قبول کیا جائے گا۔ اس بات کو اہل علم نے اپنی عملی کتابوں میں بھی تسلیم کیا ہے، اور وہ ضعیف روایات کو فضائل اعمال میں تسہل کے ساتھ شامل کرتے ہیں

بنجم ::
علماء نے فضائل کے باب میں
ضعیف حدیث کے استعمال کو محض جائز نہیں سمجھا، بلکہ بعض اوقات انہوں نے اسے احکام کے باب میں بھی اختیار کیا، جب اس کے سوا کوئی اور دلیل موجود نہ ہو۔
شیخ طاہر السمعونی الجزائري نے اس بارے میں ایک تیسرا قول ذکر کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ "ضعیف حدیث کو احکام میں بھی لیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس باب میں اس سے متفق کوئی اور حدیث نہ ہو۔” یہ قول احمد بن حنبل سے منسوب ہے اور ان سے یہ قول بہت مشہور ہو گیا تھا۔ اس پر کچھ متکلمین نے انتہائی تعجب کا اظہار کیا، کیونکہ ان کے نزدیک دین کے احکام کو ایک مضبوط بنیاد پر قائم کرنا ضروری ہے۔ جبکہ کچھ لوگ اس قول کو انتہائی اتباع اور بدعت سے دوری کی علامت سمجھتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی تھا جو اس معاملے میں خاموش رہا۔

بشتم: بعض عملی مثالیں:

حدیث عن صفة النبي ﷺ:
ترمذی نے ہند بن ابی ہالہ سے نبی کی صفات کے بارے میں ایک طویل حدیث نقل کی ہے، جو کہ ضعیف ہے، اس میں ایسے راوی ہیں جن کے بارے میں پوری تفصیل نہیں دی گئی۔ تاہم، یہ حدیث کتب الشمائل میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

تفسير آیت النساء(قوله تعالى: {ﮞ ﮟ ﮠ ﮡ}) :
اس آیت کا
نبی ﷺ نے تفسیر میں ذکر کیا ہے کہ "جور اور مائل ہونا”۔ ابن قیم نے اس حدیث کو نقل کیا اور کہا کہ یہ اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس سے ترجیح (اختیار) کے لیے کام لیا جا سکتا ہے۔

تقنع (سر کو ڈھانپنا) جب بیت الخلاء جانے کی بات آتی ہے:
ایک ضعیف روایت کے مطابق
نبی ﷺ جب بیت الخلاء جاتے تھے یا اپنی بیوی سے ملنے جاتے تھے تو سر کو ڈھانپ لیتے تھے۔ اس روایت کو بیہقی نے نقل کیا، اور نووی، غزالی، بغوی اور دیگر فقہاء نے اسے مستحب قرار دیا کہ بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت سر کو کھلا نہ چھوڑا جائے۔
اس حوالے سے کیا ان علماء کو
ضعیف حدیث کا علم نہیں تھا؟

چهتم::
فقہ میں مختلف قاعدے جو ضعیف روایات پر مبنی ہیں، ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان قاعدوں کا حکم عام قواعد کے مترادف سمجھا جاتا ہے:

قاعدہ (لا ضرر ولا ضرار):
یہ حدیث احمد بن حنبل، ابن ماجہ اور امام مالک سے آئی ہے، جس کی سند میں کمزوری ہے، مگر پھر بھی اس قاعدے کو عملی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

قاعدہ (المسلمون عند شروطهم):
یہ حدیث بخاری کے تعلیقًا ذکر کی گئی ہے، اور اس کے باوجود فقہاء نے اس پر عمل کیا ہے، باوجود اس کے کہ اس کی سند میں کچھ مسائل ہیں۔

قاعدہ (الخراج بالضمان):
یہ روایت احمد بن حنبل، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے، جسے بعض نے ضعیف سمجھا ہے، لیکن فقہاء نے اس قاعدے کو مانا اور اس پر عمل کیا۔

قاعدہ (حدود (سزائیں) کو روک دو یا معاف کر دو:
یہ حدیث ترمذی نے نقل کی ہے، اور اس کی سند بھی ضعیف ہے، پھر بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے۔

قاعدہ (جو بھی قرض کسی فائدے کو جنم دے، وہ سود (ربا) کے مترادف ہے:
یہ روایت ثابت نہیں ہے، لیکن اس قاعدے پر فقہاء نے عمل کیا ہے۔

قاعدہ (ضع وتعجل):
یہ قاعدہ زفر بن ہذیل، ابن تیمیہ، ابن قیم اور دیگر فقہاء نے اختیار کیا ہے، اور اس کی بھی ضعیف روایت ہے، مگر اس کے باوجود فقہاء نے اس کو تسلیم کیا اور اس پر عمل کیا۔

خلاصہ:
بہت سے فقہی قواعد ضعیف روایات پر مبنی ہیں، اور فقہاء نے انہیں عملاً تسلیم کیا ہے، کیونکہ ان روایات کا دینی احکام پر اثر نہیں ہوتا، اور ان میں اصلاحی یا ترغیبی پہلو ہوتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علماء نے صرف صحیح حدیث پر نہیں، بلکہ ضعیف حدیث پر بھی قیاس اور استنباط کیا ہے، بشرطیکہ وہ موضوع (جعلی) نہ ہو۔
مولود کے کان میں اذان اور اقامت دینے کا عمل جاری ہے، اور لوگ اس کے ذریعے خوش ہوتے ہیں اور اس پر خوشی مناتے ہیں، جیسے وہ کسی بھی اچھے عمل پر خوش ہوتے ہیں۔ اس عمل کا مقصد شیطان اور اس کی وسوسوں کو دور کرنا بھی ہے۔