جواب:
اوّل: مشکل حالات میں، جو پوری امت کے لیے اہم ہوں، افراد، تنظیمات، علماء اور قائدین پر لازم ہے کہ وہ فیصلے اپنے دین کی تعلیمات کی روشنی میں کریں جو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، اور گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
مسلمان پر یہ فریضہ اس کی استطاعت کے مطابق عائد ہوتا ہے، اور کم از کم استطاعت یہ ہے کہ دل سے انکار کیا جائے، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے
"وَإِذَا رَأَيْتَ ٱلَّذِينَ يَخُوضُونَ فِىٓ ءَايَـٰتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا۟ فِى حَدِيثٍ غَيْرِهِۦ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ ٱلشَّيْطَـٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ ٱلذِّكْرَىٰ مَعَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ” (الأنعام: 68)۔
مساجد اور ادارے اس فرض کی ادائیگی میں دوسروں کے لیے نمونہ بننے کے زیادہ حقدار ہیں۔
دوم: مغربی ممالک میں سیاستدانوں کو دعوت دینا ایک سیاسی حکمتِ عملی اور سماجی سرگرمی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن عملی تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان میں سے اکثر، بلکہ تقریباً سبھی، سیاسی اور سماجی منافقت کے نظام کا حصہ ہیں جو جدید مغربی معاشروں میں گہرائی سے رچا بسا ہے، خصوصاً حکمراں طبقات میں۔
یہ لوگ ہر جگہ کے مطابق بات کرتے ہیں: مسجد میں، چرچ میں، یا کسی اور جگہ۔ لیکن ان کا اصل معیار ان کی ذاتی منفعت اور وہ کرپٹ نظام ہے جس کے ذریعے وہ اقتدار تک پہنچے ہیں۔ ان سے بہتر امید رکھنا یا تو جہالت ہے، یا خوش فہمی، یا بدنیتی۔
سوم: ان میں سے بعض کے ساتھ ضرورتاً معاملات کیے جا سکتے ہیں، جیسے کہ شہری حقوق کے بعض مسائل میں، لیکن موجودہ وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ فلسطین اور مظلوموں کی حمایت کی جائے۔ یہ قاتلوں اور ظالموں کے بائیکاٹ اور ان کے نفاق کو بے نقاب کیے بغیر ممکن نہیں۔
کانگریس کے بیشتر سیاستدان انہی میں شامل ہیں، اس لیے اس وقت کی ضرورت یہ ہے کہ فلسطین کے لیے ان کی مخالفت کی جائے اور ان کے دھوکے کو واضح کیا جائے، نہ کہ مسلمانوں کو ان کے جھوٹ اور دھوکہ دہی کا شکار بنایا جائے۔
چہارم: بدقسمتی سے، اسلامی مراکز اور ادارے غلط انتظامیہ کے سبب مسائل کا شکار ہیں، جن کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں:
- دینی تربیت کی کمی۔
- سماجی شعور اور قوموں و تہذیبوں کی تعمیر کے علم کی کمی۔
- مغربی یا غیر اسلامی شخصیات کے سامنے کمزوری کا مظاہرہ، اکثر ان مہاجرین کی وجہ سے جو ان مراکز کی قیادت میں ہیں۔
- سفید فام آقا کو خوش کرنے اور ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کی کوشش، جسے انضمام اور شمولیت کے نام پر کیا جاتا ہے۔
- اسلامی کمیونٹی کی جانب سے ان کی جواب دہی نہ کرنا، اور صرف مجالس یا سوشل میڈیا پر شکایات تک محدود رہنا۔
سوال کے جواب میں:
بیت المقدس اور فلسطین امت کا ضمیر ہیں۔ انہی کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں اور انہی پر معیار قائم ہوتا ہے۔ جو ہمارے ساتھ دل و جان سے ہے، ہم اس کے ساتھ ہیں، اور جو ہمیں دھوکہ دیتا ہے، ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
کسی مسلمان، ادارے یا تنظیم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان قاتلوں اور ظالموں کی حمایت کرے جو معصوموں کا خون بہاتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ بلکہ اس پر دینی فریضہ ہے کہ وہ ان کا بائیکاٹ کرے اور ان کے نفاق کو بے نقاب کرے۔
تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ افراد اور اداروں کو نرمی سے نصیحت کریں، اور اگر نصیحت مؤثر نہ ہو، تو قانون کے مطابق تبدیلی لائیں۔ کم از کم ان کا بائیکاٹ کریں اور ان کی غلط روش کو ظاہر کریں۔
اللہ فلسطین کے لوگوں کو فتح عطا فرمائے اور ان کے مخالفین کو رسوا کرے۔