View Categories

سوال364:کیا عورت کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ تراویح اور فرض نماز جماعت کے ساتھ بہنوں کے ایک گروپ کی امامت کرے اور آواز بلند کرے؟سوال435:

عورت کے لیے عورتوں کی امامت کرنا، جبکہ وہ مردوں سے علیحدہ ہوں، فقہی اختلاف کے مسائل میں سے ہے۔

اکثر فقہاء، یعنی احناف، شوافع اور حنابلہ، اور عطاء، سفیان ثوری، اوزاعی، اسحاق اور ابو ثور کا کہنا ہے کہ عورت کے لیے فرض اور نفل دونوں نمازوں میں دیگر عورتوں کی امامت کرنا جائز ہے۔ ان کے دلائل درج ذیل ہیں:

  • حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے عورتوں کو نماز مغرب پڑھائی، صف کے درمیان کھڑی ہوئیں اور بلند آواز سے قرأت کی۔ [ابن حزم نے روایت کیا اور ابن الملقن نے اس کی تصحیح کی ہے]۔
  • حجیرہ بنت حصین سے روایت ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں نماز عصر پڑھائی اور ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں۔ [عبدالرزاق نے مصنف میں اور دارقطنی نے روایت کیا، اور نووی نے اسناد کو صحیح کہا]۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت قرأت میں بلند آواز کر سکتی ہے اور صف کے درمیان کھڑی ہو سکتی ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت میں مذکور ہے۔

دوسری طرف، مالکیہ کا معتمد موقف یہ ہے کہ کسی بھی حالت میں عورت کی امامت جائز نہیں، چاہے مقتدی مرد ہو یا عورت، اور چاہے نماز فرض ہو یا نفل۔ ان کے دلائل درج ذیل ہیں:

  • امام مالک فرماتے ہیں کہ عورت کو کسی کی امامت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اذان جو جماعت کے لیے بلانے کا ذریعہ ہے، عورت کے لیے مکروہ ہے، اور جو مقصد اذان کا ہے وہی امامت کا بھی ہے، اس لیے یہ بھی مکروہ ہے۔
  • بخاری کی حدیث میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے: "وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوگی جو اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کرے”۔ اور نماز امامت بھی ایک قسم کی ولایت ہے۔

ہمارا رجحان جمہور کے قول کی طرف ہے، یعنی عورت کے لیے عورتوں اور نابالغ بچوں کی امامت کرنا جائز ہے