(ج): اولاً: "اللقطة” بسكون القاف: یعنی کسی چیز کو اٹھانا، اور اسی سے متعلق ہے اللہ تعالی کا فرمان: {ﭷ ﭸ ﭹ} [القصص: 8]۔ شریعت میں یہ وہ مال ہے جو معصوم ہو، جسے کسی محفوظ جگہ کے علاوہ، اور بغیر مالک کے علم کے پایا جائے۔
فـ(المال المعصوم): وہ مال ہے جو مسلمان، ذمی یا مستأمن کا ہو۔ و(وجد في غير حرز): اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مال ایسی جگہ پر پایا جائے جہاں اس کا مالک اسے محفوظ نہ کر رہا ہو، جیسے کہ وارث کو اپنے والد کی الماری میں ایسا مال ملنا جس کا اصل علم نہ ہو، یا حکام اور اہل اقتدار کی خزانوں میں ملنے والا مال۔
ثانیًا: بیشتر فقہاء کے مطابق، اللقطة کو اٹھانا جائز ہے، اور یہ عمل مستحب ہوتا ہے اگر اس بات کا خوف ہو کہ وہ چیز ضائع یا خراب ہو جائے۔
فقہاء کا عمومی موقف یہ ہے کہ اللقطة پر پانچ قسم کے حکم لگتے ہیں، اور ان کا تفصیل یہ ہے: 1- اللقطة الواجب: اگر مال ضائع ہونے کا خدشہ ہو تو اس کا اٹھانا ضروری ہے تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔ 2- اللقطة المندوب: جب مال ضائع ہونے کا خوف نہ ہو اور شخص کو اس کے بارے میں علم ہو کہ وہ اسے پہچان سکتا ہے۔ 3- اللقطة المحرم: جب اٹھانے والا مال کو اپنے لئے رکھنا چاہتا ہو اور نیت اس کو واپس کرنے کی نہ ہو۔ 4- اللقطة المكروه: جب مال کو ایسا شخص اٹھائے جس کا ایمان یا امانت پر شبہ ہو، تاکہ اسے خیانت کا خطرہ نہ ہو۔ 5- اللقطة المباح: جب چھوڑنا اور اٹھانا دونوں برابر ہوں۔
ثالثًا: دار الاسلام اور دار الكفر میں فرق نہیں ہے جب مسلمان کو امان دی جائے، سواۓ دار الحرب اور محاربین کے جہاں جنگی غنیمت کی طرح مال اٹھایا جا سکتا ہے، جیسے فلسطین یا کشمیر میں جہاں یقین ہو کہ مال دشمن کا ہے۔
رابعًا: اللقطة کے حوالے سے کچھ خاص حکم ہیں جن میں سے: 1- ایشاہد کرنا: حدیث ہے «مَنْ وَجَدَ لُقَطَةً فَلْيُشْهِدْ ذَا عَدْلٍ …».
فقہاء میں اس پر اختلاف ہے۔ ظاہرہ اور بعض شافعیوں کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے، جبکہ عمومی طور پر یہ مستحب ہے۔ 2- مال کی شناخت: تاکہ مال کے اصل مالک کو پہچانا جا سکے۔ 3- تعریف کرنا: حدیث کے مطابق «مَنْ آوَى ضَالَّةً فَهُوَ ضَالٌّ مَا لَمْ يُعَرِّفْهَا»۔
تعریف کرنے کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں جیسے سوشل میڈیا پر یا مسجد میں اعلان کرنا، لیکن اس میں احتیاط کرنی چاہیے تاکہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کی جا سکے۔
4- ایک سال تک مال کو اپنے پاس رکھنا: اس بات کا خیال رکھا جائے کہ مال استعمال نہ ہو اور مالک کے آنے تک محفوظ رکھا جائے۔ 5- ملتقط کا ضمانت دار ہونا: اگر مالک آ جائے تو مال واپس کرنا یا اس کی قیمت دینا ضروری ہے۔
اگر کوئی مالک نہیں آتا تو فقہاء کے مطابق اگر ایک سال گزر جائے تو مال کو اٹھا لیا جا سکتا ہے۔