جواب):
تراویح کی نماز اور اس کے متعلقہ تعداد کے بارے میں ہم یوں کہتے ہیں اور اللہ سے توفیق مانگتے ہیں:
اول:
تراویح لغوی طور پر "ترويحة” کا جمع ہے، اور ترويحة کا مطلب ہے رکعتوں کے درمیان ہلکی آرام یا وقفہ، جو رمضان کی قیام کی نماز میں ہوتا ہے۔ یہ عبادت کا حصہ ہے جو اللہ کے قریب جانے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اسی وجہ سے نبی ﷺ نے فرمایا: "اے بلال! ہمیں اس سے راحت دے"۔
دوم:
قیام اللیل اور تہجد کی نماز اسلام کے آغاز سے رہی ہے، جیسا کہ سورہ المزمل میں ذکر ہے۔ جب کہ تراویح کا تعلق خاص طور پر رمضان سے ہے۔
سب سے پہلے نبی ﷺ نے دسویں ہجری میں تراویح پڑھی اور چند راتوں تک اکیلے ہی پڑھی، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے رمضان میں لوگوں کو امام کے پیچھے جمع کر لیا۔ اس کے بعد یہ نماز رمضان کی عبادت میں شامل ہو گئی۔
سوم:
تراویح کی رکعتوں کی تعداد میں اختلاف ہے، اور مختلف مکاتب فکر کی رائے یہ ہے:
- جماعت کا رائے (حنفی، مالکی، شافعی، اور حنبلی):
سب سے زیادہ مشہور رائے یہ ہے کہ تراویح کی تعداد بیس رکعتیں ہیں، اس کے علاوہ وتر کی نماز۔- حنفی:
کاسانی نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو ابو بن کعب کے پیچھے بیس رکعتیں پڑھوائیں اور کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
مالکی: ابن عرفة نے کہا کہ یہ صحابہ اور تابعین کا عمل تھا۔
شافعی:
نووی نے کہا کہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ تراویح بیس رکعتیں ہوں گی۔
حنبلی:
ابن تیمیہ نے کہا کہ ابو بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں بیس
رکعتیں پڑھاتے تھے اور یہ عمل سنت کے مطابق تھا۔
مالکی کا ایک اور موقف:
مالکیہ کے ایک قول کے مطابق تراویح کی تعداد چھتیس رکعتیں ہو سکتی ہیں، جو مدینہ کے اہل کا طریقہ تھا۔
اہل حدیث کا موقف:
بعض اہل حدیث کے مطابق تراویح آٹھ رکعتیں ہیں، اور یہ روایت صحیحین میں موجود ہے، جس میں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی ﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتیں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
ابن تیمیہ کا موقف:
ابن تیمیہ نے کہا کہ تراویح کی تعداد کا کوئی مخصوص عدد نہیں ہے، اور نبی ﷺ نے رمضان میں کبھی بھی تیرہ سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں، لیکن صحابہ نے مختلف تعداد میں نماز پڑھی، جیسے بیس، چھتیس، یا چالیس رکعتیں، اور یہ سب درست ہے۔اختتاماً:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تراویح کے رکعات کی تعداد میں علماء کا اختلاف ہے، اور یہ مختلف حالات اور لوگوں کی سہولت کے مطابق ہو سکتی ہے۔ جہاں تک مسجد کی جماعت کا تعلق ہے، وہاں بیس رکعتوں کی تعداد عام طور پر پائی جاتی ہے، لیکن انفرادی طور پر آدمی زیادہ یا کم پڑھ سکتا ہے