جواب):
پہلا: اصل یہ ہے کہ فرض عبادات، بشمول نماز، اپنے ارکان کے مطابق ادا کی جانی چاہیے، جیسے نبی ﷺ نے ادا کی۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي” اور "خُذُوا عَنِّي مَنَاسِكَكُمْ"۔ نماز کے کچھ ارکان ہیں جو صرف اسی صورت میں درست ہوں گے جب وہ ان کے صحیح طریقہ پر ہوں، جیسے قیام، رکوع اور سجدہ۔
دوسرا: نماز میں معذوری کے بارے میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "صلِّ قائمًا، فإن لم تستطع فقاعدًا، فإن لم تستطع فعلى جنبٍ"۔
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے حادثہ کے بعد بیٹھ کر نماز پڑھی اور صحابہ نے آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔
تیسرا: علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ معذور شخص کے لئے دیگر ارکان میں بھی عذر لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔
جماعت کا کہنا ہے کہ معذوری صرف اس رکن تک محدود ہے جس میں عذر ہو، یعنی اگر کوئی قیام نہ کر سکے مگر رکوع اور سجدہ کرسکے تو وہ قیام میں تخفیف کر کے باقی ارکان کو اپنی حالت کے مطابق ادا کرے۔ شافعیوں اور حنبلیوں کا یہی مؤقف ہے۔
حنفیہ کے مطابق، اگر قیام میں معذوری ہو تو وہ رکوع اور سجدہ کی حالت میں بھی تخفیف کر سکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: { پس اللہ سے ڈرو جتنا تم سے ہو سکے } [بقرة: 238]۔
اس لئے اگر کوئی شخص قیام کے لئے معذور ہو تو وہ اپنی نماز مکمل کرے گا اور رکوع اور سجدہ کے لئے بھی اس تخفیف کا فائدہ اٹھا سکتا ہے، اور کرسی پر بیٹھ کر ہی ایما کرکے رکوع اور سجدہ کر سکتا ہے۔ہماری رائے کے مطابق حنفی مسلک کا اختیار کرنا بہتر ہے، کیونکہ یہ آسانی فراہم کرتا ہے اور شریعت کی قواعد کے مطابق ہے، خاص طور پر جب بات عبادات میں آسانی کی ہو، جیسے نماز جسے روزانہ ادا کیا جاتا ہے۔