جواب:
پہلا: ہمیں یہاں ایک بنیادی بات واضح کرنی ہے کہ
:
رواية الحديث اور فهمه میں فرق ہوتا ہے۔
صحّتِ حدیث اور اس پر عمل کرنے میں بھی فرق ہوتا ہے۔
اس بات کی وضاحت کے لیے ہم مثال دے سکتے ہیں کہ کسی راوی کا کام صرف حدیث کو روایت کرنا ہے، لیکن اس کا یہ ضروری نہیں کہ وہ اس حدیث کے فقیہی پہلو کو بھی سمجھے۔ ایسے ہی قرآن کے حافظین بھی ہیں، جو حفظ میں ماہر ہیں لیکن ان کا قرآن کی تفصیل سمجھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
اسی طرح ایک صحیح حدیث ہو سکتی ہے جس پر عمل نہ کیا جائے، اور ایک ضعیف حدیث ہو سکتی ہے جس پر عمل کیا جائے۔ اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔
دوسرا: شیخ الالبانی ایک معروف حدیث کے عالم ہیں، لیکن ان کی فقہ اور اصول کے شعبے میں اتنی گہری مہارت نہیں تھی جتنی ان کے حدیث کے علم میں تھی۔ ان کے فتاویٰ کبھی کبھار جمہور فقہاء سے مختلف اور بعض اوقات متنازعہ ہیں، جیسے کہ ان کا دعویٰ کہ نبی اکرم ﷺ کی عصمت مطلق نہیں ہے، یا ان کے چند دوسرے فتاویٰ جو زیادہ تر عوامی فقہاء کے خیال سے مختلف ہیں۔
تیسرا: جہاں تک بات ہے ہفتہ کے دن روزہ رکھنے کی، تو اس کے بارے میں جو حدیث ہے وہ عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے آئی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: « ہفتے کے دن روزہ نہ رکھو، سوائے اس کے جو اللہ نے تم پر فرض کیا ہے » یعنی ہفتہ کے دن روزہ مت رکھو، سوائے ان عبادات کے جو فرض ہوں۔ اس حدیث کی بنیاد پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہفتہ کے دن روزہ رکھنا منع ہے، لیکن:
اس حدیث کی سند میں کچھ مشکلات ہیں۔
اس میں بعض اضطراب بھی پایا جاتا ہے۔
اس میں بعض مضبوط دلائل کی مخالفت بھی کی گئی ہے۔
اور اس کا مفہوم بھی مختلف طریقوں سے لیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا، یہ دلیل یوم عرفة کے روزہ پر مقدم نہیں ہو سکتی
ضعف روایت: کئی محدثین نے ہفتہ کے دن روزہ رکھنے کی حدیث پر تنقید کی ہے اور اسے ضعیف اور متنازعہ قرار دیا ہے۔ ان میں سے کچھ نے یہ کہا:
امام مالک نے اسے جھوٹ قرار دیا۔
امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یحییٰ بن سعید اسے避 کرتے تھے اور مجھے اس سے روایت کرنے سے منع کیا۔
امام النسائی نے اسے متنازعہ (مضطرب) کہا۔
امام ابن حجر نے کہا کہ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں لیکن یہ حدیث اضطراب کا شکار ہے، اور اس میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔
امام ابن تیمیہ نے کہا کہ اس پر سلف سے انکار کیا گیا ہے۔
اضطراب در روایت: یہ حدیث مختلف راویوں سے مختلف طریقوں سے آئی ہے اور اس میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ کبھی یہ حدیث صماء سے آئی ہے، کبھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے، کبھی عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے، اور کبھی کہا گیا کہ یہ ان کی پھوپھی یا خالہ سے آئی ہے۔ اس طرح اس حدیث کی روایات بہت سی ہیں اور ان میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
مخالفت اقویٰ روایات: کچھ روایات ایسی ہیں جو یہ سمجھاتی ہیں کہ ہفتہ کے دن روزہ رکھنا جائز ہے، جیسے کہ:
حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا: «نبی ﷺ کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ وہ مہینے کے کسی بھی دن روزہ رکھتے»۔
حدیث عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ: «روزہ رکھو ایک دن اور افطار کرو اگلے دن، یہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے اور سب سے بہترین روزہ ہے»۔ اس حدیث میں ہفتہ یا کسی اور دن کو استثنیٰ نہیں دیا گیا۔
مفہوم کا احتمال: اگر ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ اس روایت کی سند صحیح ہے، تب بھی اس کا مفہوم متنازعہ ہے۔ اس کا ممکنہ مفہوم یہ ہے کہ ہفتہ کے دن کو خصوصی طور پر روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ یہ یہود کی طرح کی مشابہت سے بچا جائے جو اپنے ہفتہ کو عبادت کا دن مانتے ہیں۔ تاہم، یہ بات واضح نہیں کہ ہر ہفتہ کو روزہ رکھنا منع ہے، بلکہ اس سے مراد مخصوص حالات میں روزہ نہ رکھنا ہو سکتا ہے۔لہذا، یوم عرفة یا یوم عاشوراء جیسے مواقع پر، یا کسی عادت کی بناء پر (جیسے روزہ رکھنا اور افطار کرنا) یا نذر کے پورا کرنے کے لئے ہفتہ کو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔