View Categories

سوال213: سوال: کیا زکاة اس شخص پر واجب ہے جو نصاب کے برابر مال رکھتا ہو؟

جواب:
ج): فقہاء کرام نے زکات کے مستحق اور غیر مستحق افراد کے درمیان حدِ ادنیٰ کے تعین میں اختلاف کیا ہے، جو کہ فقیر و مسکین کی شناخت کے لیے اہم ہے، اور اس کی تفصیل درج ذیل ہے

١– احناف کا کہنا ہے کہ زکات کے مستحق فقیر و مسکین کی چند اقسام ہیں:

وہ شخص جو مکمل طور پر محروم ہو۔

وہ فقیر جو نصاب کے برابر مال نہیں رکھتا۔

وہ جو نصاب کے برابر مال یا جانور نہیں رکھتا۔

وہ جو اپنے گھر، سامان اور اہل خانہ کی ضروریات کے لیے مال رکھتا ہے، لیکن اس کے پاس نصاب سے زیادہ مال نہیں ہے۔

احناف نے اس پر اختلاف کیا کہ اگر کسی کے پاس جانوروں کا نصاب ہو، لیکن وہ نصاب سکہ (پیسوں) کے برابر نہ ہو، تو بعض کا کہنا تھا کہ جانوروں کا نصاب ہی معتبر ہے، جبکہ دوسروں کا کہنا تھا کہ نصاب سکہ (پیسوں) کا ہونا ضروری ہے، تاکہ ہر مال کا نصاب سکہ تک پہنچنا ضروری ہو۔

لہذا، احناف کے نزدیک نصاب کا مالک ہونا ایک حد فاصل ہے جو انسان کو غنی یا فقیر کی شناخت میں مدد دیتا ہے، اور یہ معیار ان کے ہاں زکات کی فرضیت کے تعین کا ہے۔ تاہم، احناف کا یہ بھی کہنا ہے کہ نصاب کی قیمت اگر کسی ضروریات کے لیے خرچ کی جا رہی ہو، جیسے قرض، رہائش یا علاج، یا خوراک و پانی کی ضرورت کے لیے خرچ ہو رہی ہو، تو اسے شرعی نصاب نہیں سمجھا جائے گا۔

جمهور (مالکیہ، حنبلیہ، شافعیہ) کا کہنا ہے کہ فقر اور مسکنت کا تعلق صرف نصاب کے مالک ہونے سے نہیں ہے، بلکہ اگر کسی کے پاس نصاب ہو لیکن وہ ضرورت مند ہو، تو بھی زکات واجب ہوگی۔ یعنی اگر کسی کے پاس سات روپے ہیں اور اسے دس روپے کی ضرورت ہے تو وہ زکات کا مستحق ہوگا، چاہے اس کا مال نصاب تک پہنچے یا نہ پہنچے۔

اس کے مطابق، اگر کسی کے پاس پانچتالیس گرام سونا ہے، جو کہ نصاب کے برابر ہو، تو اس پر زکات واجب ہوگی، بشرطیکہ وہ شخص اپنی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش اور علاج میں اس مال کو خرچ نہیں کر رہا ہو۔ اگر وہ مال ان ضروریات میں استعمال ہو رہا ہو تو پھر زکات واجب نہیں ہوگی، کیونکہ وہ حقیقت میں غنی نہیں ہے۔

زکات کی فرضیت کا تعلق اس وقت سے ہے جب نصاب مکمل ہو اور اس کی مدت مکمل ہو جائے، نہ کہ اس کے بعد کتنی مدت گزری ہو۔ اگر کسی کے پاس کم سے کم نصاب ہے، لیکن اس کی ضروریات نے اس کا نصاب کم کر دیا ہو، تو اس پر زکات واجب ہے، جیسا کہ تمام مذاہب کا قول ہے۔