View Categories

(سوال217): کیا زکات کی رقم بھیجنے کے اخراجات خود زکات کے مال سے کٹ سکتے ہیں؟

جواب):

فقہاء نے زکات کے مال کو کسی دوسرے علاقے میں بھیجنے کے اخراجات کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ ان اخراجات میں نقل و حمل کی مئونة (قیمت) شامل ہے:

شافعیہ اور حنبلیہ کے جمہور علماء کا کہنا ہے کہ زکات کی منتقلی کے اخراجات خود زکات دہندہ پر ہی آتے ہیں، جیسے باقی واجبات مثلاً نماز اور حج کی حالت میں ہوتا ہے، یعنی مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ فرض ادا کریں اور اس سے متعلق اخراجات بھی خود اٹھائیں۔

مالکیہ کے علماء کا کہنا ہے کہ یہ اخراجات صرف اُس صورت میں زکات دہندہ پر آتے ہیں جب زکات اس کے اپنے علاقے میں دی جائے، لیکن اگر زکات دوسرے علاقے میں بھیجنی ہو تو یہ اخراجات بیت المال پر ہوں گے۔

ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دو باتوں میں فرق کیا جائے:

اگر زکات دہندہ خود زکات کو مستحق تک پہنچاتا ہے تو نقل و حمل کا خرچ اس پر آتا ہے کیونکہ زکات میں جو حق مستحق کا ہے، وہ اس کا ہے، اور زکات دہندہ کو کسی قسم کا حصہ رکھنے کا حق نہیں ہے۔

لیکن اگر زکات کسی وکیل (جیسے ریاست، مسجد، یا کوئی امدادی تنظیم) کو دی جاتی ہے تاکہ وہ زکات کو مستحق تک پہنچائے، تو اس صورت میں نقل و حمل کے اخراجات زکات کے مال سے کٹ سکتے ہیں کیونکہ اس نقصان کا ذمہ دار زکات دہندہ نہیں ہے بلکہ یہ مستحق کے حق میں ہے۔

اس میں ایک سوال آ سکتا ہے کہ اگر زکات کسی وکیل (جیسے مسجد یا خیرات کی تنظیم) کو دی جائے تو کیا وہ اس میں شامل نہیں ہیں جو "عاملین” کہلاتے ہیں اور ان اخراجات کو اس مد میں شمار نہیں کیا جا سکتا؟

ہم کہتے ہیں: عاملین کے لیے مخصوص شرائط ہیں، اور ہر وکیل زکات کے اخراجات میں عاملین میں شامل نہیں ہوتا۔ عاملین وہ ہیں جو اسلامی ریاست کے حکام یا تسلیم شدہ اداروں کی طرف سے زکات کی جمع آوری اور تقسیم میں مدد کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں، اور ان کا کام زکات کی فراہمی، اس کے احکام کی آگاہی، مستحقین کو پہنچانا، اور زکات کے حوالے سے دیگر ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔

چونکہ مساجد اور تنظیمیں ایک ہی حکومتی ادارے کے تحت نہیں آتیں، اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مقامی افراد اس بات پر اتفاق کریں کہ وہ عاملین ہیں تاکہ انہیں عاملین کا حصہ مل سکے۔ اگر ایسا اتفاق ہو جائے تو ان اداروں کو عاملین کا حصہ مل سکتا ہے، ورنہ وہ صرف وکیل اور امین ہوں گے۔

یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ مسجد یا ادارہ ایک قانونی شخصیت ہے، اور اس کو عاملین کا حصہ ملے گا نہ کہ اس میں کام کرنے والے افراد (جیسے امام، انتظامیہ، یا مجلس امناء) کو۔ اور پھر یہ ادارہ اپنے اخراجات اور کام کے لیے اس حصے کو استعمال کرے گا۔اس کے علاوہ، یہ بھی اچھا ہوگا کہ ہم شافعیہ کے موقف کو اپنائیں جو کہتے ہیں کہ زکات کے جمع کردہ مال کو مستحقین کے درمیان تقسیم کیا جائے اور عامل کا حصہ باقی مستحقین کے حصے سے زیادہ نہ ہو