View Categories

سوال241: ایک شخص نے دو سال سے اپنی بیوی کو چھوڑ رکھا ہے، اور وہ ایک بیوی کو معلق اور دو بچوں کو چھوڑ کر ماہانہ خرچہ دے رہا ہے۔ کیا بیوی کو اس خرچے سے اپنی ضروریات پر خرچ کرنے کی اجازت ہے؟

جواب:

اول

: یہ حرام ہے کہ بیوی کو معلق چھوڑ دیا جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
{ اور اگر تمہیں ان دونوں (میاں بیوی) کے درمیان جھگڑے کا خوف ہو، تو ان کے خاندان سے ایک منصف بھیج دو، اور اس کے خاندان سے بھی ایک منصف، اگر وہ دونوں اصلاح کی نیت رکھتے ہوں، تو اللہ ان کے درمیان صلح کر دے گا۔ } (نساء: 129)
اور اللہ کا فرمان:
{ پھر اگر وہ تم سے علیحدہ ہو جائیں اور تمہاری طرف آجائیں تو ہم نے ان پر اس کو حرام کر دیا ہے۔ } (بقرة: 231)

دوم:ً:

درخواست کر سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ اور جو اپنے بیویوں کو اذیت دیتے ہیں” } (بقرة: 226-227)

سوال کی تفصیل:

 کیا ماں اپنے بچوں کے پیسے سے اپنی ضروریات پر خرچ کر سکتی ہے؟

اگر بچے نابالغ ہیں اور ماں کو ان کی حاضانی کا حق ہے، تو وہ ان کے خرچے سے اپنی ضروریات پر خرچ کر سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ اور اس کا دودھ چھوڑنا دو سال میں ہے } (بقرة: 233)
اور اگر بچے بالغ ہیں، تو وہ ان کی اجازت سے ایسا کر سکتی ہیں۔ لیکن اگر ان کی اجازت کے بغیر خرچ کرے تو اس پر اختلاف ہے۔

عطاء بن ابی رباح، الزہری اور ابن حزم نے کہا کہ ماں کو بھی ایسا کرنے کی اجازت ہے جیسے والد کو ہے، اور اس کا استدلال اس حدیث سے کیا گیا ہے جو عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے روایت کی:
"رسول اللہ
سے پوچھا گیا کہ میرے پاس مال اور بچے ہیں اور میرے والد میرا مال لے لیتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: ‘تم اور تمہارا مال تمہارے والد کے لیے ہے۔

اور بعض لوگوں نے کہا کہ یہاں صرف والد کا ذکر کیا گیا ہے، اور یہ مخصوص ہے، اور اگر نبی عموم چاہتے تو لفظ "والديك” استعمال کرتے، نہ کہ "أبيك”۔

صحیح رائے یہ ہے کہ یہ عموم ہے، بلکہ اب ممکن ہے کہ ماں کو مال کی زیادہ ضرورت ہو جو بیٹے کے پاس ہو، اور اس بات کو بھی ثابت کرتا ہے کہ نبی نے ماں کی عبادت کے بارے میں تین بار ذکر کیا ہے، اور خرچ کرنا بھی عبادت کا حصہ ہے۔ اور یہاں والد کا ذکر محض غالب طور پر کیا گیا ہے، نہ کہ اس کا قصر کیا گیا ہے، کیونکہ عموماً ماں کا خرچ اس کے شوہر کے ذمے ہوتا ہے۔