View Categories

سوال246): کیا بیوہ عورت کو شرعًا چار ماہ اور دس دن تک گھر میں رہنا ضروری ہے یا یہ محض روایات اور عادات ہیں؟

جواب:
اول: بیوہ عورت کی عدت چار ماہ اور دس دن ہے جیسے کہ قرآن میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے:
{ اور تم میں سے جو لوگ انتقال کر جاتے ہیں اور اپنی بیویوں کو چھوڑ جاتے ہیں، تو وہ اپنی ذات کے لیے چار ماہ اور دس دن تک عدت گزاریں گی
۔”} [البقرة: 234]۔

اس عدت کا مقصد کچھ اہم چیزیں ہیں جن میں شامل ہیں: رحم کی صفائی، فوت شدہ شوہر کے لیے وفاداری کا اظہار، شکوک و شبہات کو دور کرنا اور دکھ کی حالت سے گزرنا۔

دوسرا: عدت کا مقصد بیوی کو گھر میں قید کرنا یا کسی مخصوص جگہ پر رکھنے کا نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ گھر میں رہنا اس عدت کے مقصد کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ وہ خود مقصد یا حکم۔

جو ضروری ہے وہ یہ ہے کہ عدت کے دوران اس کے مقاصد پورے ہوں جیسے کہ فوت شدہ شوہر کے لیے وفاداری کے اظہار کے لیے خطبے یا شادی کی تیاری کے دروازے بند کیے جاتے ہیں، کیونکہ ایک آزاد اور باعزت عورت کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ بغیر کسی وقفے کے بستر بدل لے، جیسا کہ فاسقوں یا بدکاروں کی طرح کیا جاتا ہے۔

شکوک و شبہات سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ عورت غیر ضروری یا غیر ضروری مواقع پر گھر سے باہر نہ نکلے، تاکہ اگر بعد میں حمل ظاہر ہو جائے یا عدت کے فوراً بعد کسی کا نکاح ہو جائے تو کسی بدگمانی کا سامنا نہ ہو۔

وفاداری کے اظہار کے لیے زینت یا اس کے اسباب سے بچنا ضروری ہے، کیونکہ یہ معاشرتی طور پر بیوہ ہونے کی عزت کے خلاف ہوتا ہے۔

رحم کی صفائی کے لیے غیر محرم مردوں سے خلوت اور بغیر شرعی ضرورت کے ظاہر ہونا منع ہے۔

تیسرا:

عدت کے دوران بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر اس نے کسی شرائط کے تحت کام کرنے کا عہد کیا ہو، جیسے کہ وہ کام کرنے والی ہو، تو وہ کام کے لیے باہر جا سکتی ہے اور کام ختم ہونے کے بعد واپس آ سکتی ہے۔

اسی طرح اس کی گھر سے باہر نکلنا صرف ضرورتوں کے لیے ہونا چاہیے جیسے کھانے پینے کی اشیاء خریدنا، علاج کروانا یا اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنا جو وہ خود نہیں کر سکتی۔

اسے مساجد میں نماز جماعت یا علم کے دروس میں شرکت کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ شرعی طور پر ضروری نہیں ہے۔